سیدی اعلی حضرت رضی اللہ عنہ عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا پیکر مجسم تھے جس کا اعتراف اپنوں کے علاوہ غیروں نے بھی کیا ہے ، اسی عشق کے تقاضے کے مطابق آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پاکباز آل کی بھی تعظیم و توقیر کرتے تھے , آپ کی زندگی کا مطالعہ کرنے والے پر یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ ایک عام سید زادے کی بھی آپ اس غایت تعظیم فرماتے کہ لوگ عش عش کراٹھتے ، چشم فلک نے وہ نظارہ بھی دیکھا ہے کہ وقت کا مجدد مجمع عام میں اپنی مخصوص پالکی سے اتر کر اپنے سارے اعزاز و اکرام کو ایک سید زادے کے قدموں میں نثار کر دیا اور ان کو پالکی میں بٹھا کر پالکی اپنے کاندھے پر اٹھا لی ، ہر شخص محوحیرت تھا کہ اہل سنت کا امام اس قدر احترام سادات کا لحاظ رکھتا ہے ، یہ تو عمومی سادات کے ساتھ آپ کا معاملہ تھا جس کے کثیر شواہد حیات اعلی حضرت میں موجود ہیں تو پھر وہ سادات جن سے آپ شرف بیعت حاصل تھے ، ان کے احترام میں آپ کا کیا معاملہ رہا ہوگا تو اس کے لیے آنے والی سطروں کا مطالعہ کریں ، جیسا کہ میرے ابا حضور حضور فیق ملت مدظلہ العالی نے میرے سامنے مسجد برکاتی میں بیان فرمایا ، کہ سرکار اعلی حضرت علیہ الرحمۃ والرضوان نے ایک مرتبہ حضرت مہدی حسن سجادہ نشین سرکار کلاں مارہرہ شریف کے ہاتھ میں انگوٹھی اور چھلا پہنا ہوا دیکھا سرکار اعلی حضرت نے شریعت اور شہزادے دونوں کا پاس و لحاظ کرتے ہوئے فرمایا سرکار مجھے انگوٹھی اور چھلے عنایت فرما دیں تو حضرت مہدی حسن علیہ الرحمۃ والرضوان نے سرکار اعلی حضرت کو خوشی خوشی انگوٹھی اور چھلہ دے دیا پھر سرکار اعلی حضرت نے وہ انگوٹھی اور چھلہ حضرت مہدی حسن کی صاحبزادی فاطمہ کو بھجوا دیئے پارسل کی صورت میں اور نامہ میں مذکور تھا کہ شہزادی یہ دونوں طلائی اشیاء آپ کی ہیں یہ تھا سرکار اعلی حضرت کا امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اور ساتھ ساتھ اکابر و مشائخ کی تعظیم و توقیر ، اسی طرح ایک مرتبہ سرکار اعلی حضرت اور حضرت تاج الفحول محب رسول مولانا شاہ عبدالقادر صاحب بدا یونی قدس سرہ العزیز کے مابین کبھی کبھی بعض مسائل میں اختلاف ہو جاتا تھا ایک مرتبہ مسئلہ عینیت وغیریت صفات باری پر بحث ہو گئی اختلاف پیدا ہوگیا ، مولانا عبدالقادر صاحب فرماتے ہیں کہ صوفیاء کے صفات کو عین ذات ماننے اور فلا سفہ کے عین ذات ماننے میں فرق ہے اور مولانا احمد رضا خان صاحب اس فرق کو ماننے میں اپنا تامل ظاہر فرماتے تھے آخر دونوں کا اس بات پر اتفاق ہوا کی سیتاپور چلیں اور وہاں حضور جدامجد سیدناشاہ اچھے میاں صاحب قدس سرہ العزیز کی مؤلفہ کتاب ( آئین احمدی) کی جلد عقائد میرے کتب خانہ میں ہے اور دیگر کتب صوفیاء بھی وہاں موجود ہیں ان میں فرق کو دیکھ لیجئے گا دونوں حضرات تشریف لائے اور (آئین احمدی ) کی جلد عقائد سے کتاب زبدۃ العقائد ، مؤلفہ حضرت سید احمد صاحب کا لپوی مولانا عبدالقادر صاحب نے نکال کر دکھائی ، اسے دیکھ کر حضرت مولانا احمد رضا خان صاحب نے فرمایا میں بغیر دلیل تسلیم کر لیتا ہوں کہ صوفیاء کے قول عینیت اور فلاسفہ کے قول عینیت میں فرق ہے اس لئے کہ میرے مرشدان عظام فرماتے ہیں کہ ہم جو صفات کو عین ذات مانتے ہیں وہ اس طرح نہیں جس طرح فلاسفہ مانتے ہیں اگر چہ دلیل سے یہ فرق میرے ذہن میں اب تک نہیں آیا ہے لیکن چونکہ میرے مرشدان عظام فرماتے ہیں اس لیے اپنے مرشدان عظام کے ارشاد پر سرتسلیم خم کرتا ہوں ، سرکار اعلی حضرت علیہ الرحمۃ والرضوان سرکار نوری میاں سے بہت محبت فرمایا کرتے تھے مرشد کے وصال کے بعد آپ سرکار نوری میاں سے ہی فیض حاصل کرتے رہے اور سرکار نوری میاں کا آپ نے ایک طویل زمانہ پایا اس دوران آپ نے سرکار نوری میاں سے خوب کسب فیض کیا جس کا تذکرہ آپ خود قصیدہ نور میں اس طرح فرماتے ہیں ،

*اے رضا یہ احمد نوری کا فیض نور ہے ہو گئی میری غزل بڑھ کر قصیدہ نور*

ایک مرتبہ سرکار اعلی حضرت کے مخالفین نے سرکار نور کی بارگاہ میں اعلی حضرت کے خلاف گفتگو کردی سرکار اعلی حضرت کو جب اس کا علم ہوا تو دونوں ہاتھوں کو باندھ کر مارہرہ شریف تشریف لائے اور سرکار نور کی بارگاہ میں دو زانوں ہو کر بیٹھ گئے اور کہا جب تک سرکار نوری میاں علیہ الرحمۃ والرضوان مجھ سے راضی نہ ہوں گے تب تک اپنے ہاتھوں کو نہیں کھولوں گا اس وقت سرکار اعلی حضرت یہ شعر پڑھتے جا رہے تھے

*میرے حق میں مخالفوں کی نہ سن حق یہ میرا ہے احمد نوری*

مقطع میں یوں عرض گزار ہوئے

*ہیں رضا کیوں ملول ہو تے ہو ہاں تمہارا ہے احمد نوری نوری*

سرکار نوری میاں علیہ الرحمہ والرضوان نے جب یہ قصیدہ پورا سنا تو بڑے خوش ہوئے سرکار اعلی حضرت کو ایک نہایت ہی نفیس معطر و معںمبر عمامہ عطا فرمایا اور اعلی حضرت کے سر باندھا۔