انگریزی پڑھنے سے تقدیر سے زیادہ نہیں ملتا

(موجودہ دور میں علم دین کی ضرورت و اہمیت)

از قلم: محمد مجتدیٰ رضا خان
متعلم:جامعہ احسن البرکات مارہرہ شریف،ضلع:ایٹہ [یوپی]

موجودہ دور میں معاشرے کا جائزہ لینے کے بعد یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ آج قوم مسلم صرف مغربیت کو ترجیح دے رہی ہے اور عصری علوم کو حاصل کرنے کے لیے علم دین مصطفیٰ ﷺ سے بیزاری ظاہر کر رہی ہے جس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ آج حق و باطل کے درمیان خط امتیاز مٹتا جا رہا ہے۔ جبکہ اس پر فتن دور میں علم دین کی سخت ضرورت ہے اس لیے کہ آج دین اسلام اور مسلمانوں پر ہر طرف سے حملہ ہو رہا ہے، جہاں ایک طرف اسلام مخالف طاقتیں مسلمانوں کے جان و مال کو نیست و نابود کرنے کی سخت کوشش کر رہی ہیں، تو وہیں دوسری طرف فتنۂ وہابیت اور فتنۂ دیوبندیت ہمارے اعمال اور ہمارے عقائد کو مجروح کر رہے ہیں۔ اور اس پرفتن ماحول میں جو سب سے زیادہ مہلک فتنہ ہے وہ صلح کلیت کا فتنہ ہے جو اسلام کا لبادہ اوڑھ کر ہمارے ایمان پہ ڈاکہ ڈال رہا ہے ۔ اسلام کے آستینوں میں چھپ کر سانپ کی طرح ڈس رہا ہے اور اندر سے کھوکھلا کر رہا ہے اور ہمارے عقائد پر سختی سے وار کر رہا ہے لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ آج بھی ہماری قوم فتنۂ وہابیت اور فتنۂ صلحِ کلیت و دیوبندیت کو پہچاننے میں ناکام ہے۔ مسلک اعلیٰ حضرت اور فرقۂ باطلہ کے درمیان امتیاز کرنے سے قاصر ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ آج امت مسلمہ علم دین اور علم شرائع سے بہت دور ہو گئی ہے۔
آج ہمارے معاشرے کا ہر فرد یہ سوچتا ہے کہ اگر ہم علم دین حاصل کریں گے تو ہمیشہ غریبی میں زندگی بسر کریں گے، اگر ہم عالم بن جائیں گے تو دنیاوی شان و شوکت اور دولت و سرمایہ ہاتھ سے چلا جائے گا، غرض کہ پوری امت مسلمہ اس قسم کے باطل اوہام و افکار کے دام فریب میں پھنسی ہوئی ہے۔ سبب یہ ہے کہ لوگوں نے اللہ تعالی کی ذات پر توکل نہیں کیا بلکہ صرف اسباب پر توکل کیا، حالانکہ ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے بے شمار ایسے علمائے کرام ہیں جن کو اللّٰہ نے بے شمار دولتیں عطا فرمائی ہیں جن کے ذریعہ وہ دین کی نشرواشاعت کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حضور حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمۃ والرضوان لکھتے ہیں کہ: ” انگریزی پڑھنے سے تقدیر سے زیادہ نہیں ملتا، عربی پڑھنے سے آدمی بدنصیب نہیں ہو جاتا، ملے گا وہی جو رزاق نے قسمت میں لکھا ہے بلکہ تجربہ یہ ہے کہ اگر عالم پورا عالم اور صحیح العقیدہ ہو تو بڑے آرام میں رہتا ہے اور جو لوگ اردو کی چند کتابیں دیکھ کر وعظ گوئی کو بھیک کا ذریعہ بنا لیتے ہیں کہ وعظ کہہ کر پیسے مانگنا شروع کر دیا۔ ان کو دیکھ کر عالم دین سے نہ ڈر، یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنا بچپن آوارگی میں خراب کر دیا ہے اور اب مہذّب بھکاری ہیں ورنہ علمائے دین کی اب بھی بہت قدر و عزت ہے جب گریجویٹ مارے مارے پھرتے ہیں تو مدرسین علماء کی تلاش ہوتی ہے اور نہیں ملتے “۔

محترم قارئین! جب آپ غور کریں گے تو معلوم ہوگا کہ قادر مطلق اور رزّاق مطلق اللّٰه تعالیٰ کی ذات ہے وہ جسے چاہتا ہے عزت و سربلندی کا تاج اس کے سر پر رکھ دیتا ہے۔ صوفیاںٔے کرام فرماتے ہیں کہ ” شریعت و طریقت پرکامیابی سے چلنے کے لیے توکّل علی اللّٰه سب سے بڑی عبادت ہے “۔
محترم قارئین! آپ غور فرمائیں کہ ایسی تعلیم سے کیا فائدہ جو آپ کے عقائد و اعمال کی حفاظت نہ کرسکے جو آپ کو شریعت مصطفی ﷺ اور مسلک اعلیٰ حضرت سے دور کر دے۔ ایسی تعلیم لا یعنی ہے جس کے ذریعے آپ اسلام مخالف طاقتوں کا مقابلہ کرنے کے بجائے اس کا آلۂ کار بن جائیں، جس تعلیم کے ذریعے آپ فتنۂ وہابیت، دیوبندیت و فتنۂ صلحِ کلیت سے خود اور اپنے گھر والوں اور اپنی سوسائٹی اور امت مسلمہ کا دفاع نہیں کرسکتے، اس لیے ہم عصری تعلیم کو صرف بقدر ضرورت ہی حاصل کریں، باقی ہم اجلّ علوم کو حاصل کریں تاکہ ہم اپنے عقائد و اعمال کو بحسن خوبی محفوظ کر سکیں ممکن ہے کہ جب ہم علم دین حاصل کریں گے تو ہمارے پاس دولت کی فراوانی نہیں ہوگی تو اس کی بالکل بھی فکر نہ کریں اور اللّٰه تعالیٰ کی ذات پر مکمل توکّل کریں اور اس کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش کریں وہ بے حساب نوازے گا۔
محترم قارئین! جب ہم اپنے معاشرے اور اپنے قوم کا جائزہ لیتے ہیں تو ہم یہ دیکھتے ہیں کہ بے شمار لوگ دنیاوی اعتبار سے ہائی ایجوکیشن تو حاصل کر چکے ہیں لیکن افسوس اس بات پر ہے کہ وہ لوگ صحیح طور سے کلمۂ طیبہ شریف بھی پڑھنا نہیں جانتےہیں۔ طہارت اور نماز کے ضروری مسائل سے ناواقف ہوتے ہیں قرآن مجید کی چھوٹی چھوٹی سورتیں بھی صحیح اور سلیقے سے نہیں پڑھ پاتے اسلام کے بنیادی عقائد اور وہ ضروریات دین جن پر ایمان کا دارومدار ہے اس کا بھی علم نہیں رکھتے ہیں، حتیٰ کہ حرام و حلال میں تمیز نہیں کر پاتے اور بسا اوقات لاعلمی کی وجہ سے کفریہ کلمات بھی اپنی زبان سے ادا کر دیتے ہیں۔
قارئین کرام! جب ہم وضو اور غسل کرنا صحیح طور سے نہیں سیکھیں گے تو اس وضو اور غسل سے جتنی نمازیں ادا کریں گے سب رائیگاں ہوں گی اور اس کا اعادہ واجب و ضروری ہوگا اور قرآن شریف پڑھنا نہیں سیکھیں گے تو نماز پڑھنا اور ایصال ثواب کرنا بھی نہیں جان پائیں گے تو پھر ایسے علوم کے لئے جدوجہد کرنا لا یعنی ہے جس کے ذریعے ہم حرام و حلال میں تمیز نہ کرسکیں۔ جس کے ذریعے ہم وہ مسائل جو ضروریاتِ دین سے ہیں اور ہمارے روز مرہ کی زندگی سے تعلق رکھتے ہیں اس کو حل نہ کر سکیں اور مسلک اعلیٰ حضرت کو فرقۂ باطلہ سے ممتاز نہ کر سکیں۔
قارئین کرام ہم پر ضروری ہے کہ ہم علوم دین کو اعلیٰ لیول پر حاصل کریں اور گھر گھر علم دین کا چراغ روشن کریں تاکہ ہم اسلام مخالف طاقتوں اور فرقۂ باطلہ کا سدّباب کر سکیں۔
چراغ علم نبی ہر طرف جلائیں گے
جہاں سے جہل کی تاریکیاں مٹائیں گے

یاد رکھیں ! دنیا کی زندگی چار دن کی ہے پھر ہمیشہ رہنے والے گھر کی طرف لوٹنا ہے تو ہمیشہ جہاں رہنا ہے وہاں کا انتظام کرو، جہاں مسافرت کے دن کاٹنے آئے ہو وہاں کی فکر چھوڑو بھوکے مر جاؤ مگر ایمان کے ساتھ مرو۔