اسلامی نظام زکوٰۃ غربت دور کرنے کا بھترین نظام

محمد عمر نظامی جمعیت علماے اہلسنت ممبٸی

اور تم آپس میں ایک دوسرے کا مال باطل طور پر نہ کھاو (القرآن)
ماہ رمضان المبارک میں مسلمانان عالم عمومی طور پر اپنے مال کی زکوٰۃ نکالتے ہیں زکوٰۃ اسلام کا بھترین معاشی مساٸل غربت و افلاس سماج سے ختم کرنے کا ذریعہ ہے قرآن مقدس نے صاف لفظوں میں مسحقین زکوٰۃ کی تفصیل بھی بیان فرمادی ہے
اگر مسلمان اپنے اپنے علاقوں میں نظام زکوٰۃ پر پوری طرح عمل پیرا ہو جاٸیں تو مسلم سماج کی ترقی و خوشحالی کا دنیا کی کوٸی قوم مقابلہ کر ہی نہیں سکتی ہے ضلعی طور پر ایک بیت المال ہو اور ایک ضلع کے جتنے سرمایہ دار حضرات ہیں وہ اپنے ضلع کے بیت المال میں پوری ایمانداری سے اپنی زکوٰۃ کی رقم جمع کرکے انتظامیہ کو پابند بنادیں کہ مستحقین زکوٰۃ پر میری رقم آپ خرچ کردیں اور اگر اسکی نگاہ میں کوٸی مجبور محتاج معاشی قلت کا سامنا کرنے والا رشتےدار جو صاحب نصاب نہیں ہے اسکی بھی نشاندہی کردے
اب پورے ضلع میں انتظامیہ سروے کرکے بیروزگاروں کو زکوٰۃ کی رقم سے انھیں بر سر روزگار کردے یا ہاسپٹل کے ان مریضوں کا علاج کی ذمےداری لےلے جن کے پاس علاج کیلیے پیسے کا کوٸی انتظام نہیں ہے
یا وہ غریب بچے جو تعلیم کی فیس بھرنے کی طاقت نہیں رکھتے انھیں سال بھر کی فیس کا مالک بناکر اگر صاحب نصاب نہیں ہے اسکی فیس ادا کردی جاٸے اور اسی طرح سے وہ قیدی جو بے قصور جیل کی سلاخوں میں مقید ہیں ضمانت کی رقم ادا نہ کرپانے کی وجہ سے رہاٸی نہیں مل پارہی ہے انکو زکوٰۃ کی رقم کا مالک بناکر انکی ضمانت کرادی جاے
اسی طرح مدارس جو دینی تعلیم کے قلعے ہیں جہاں سے ہر سال علماء فضلاء و حفاظ کرام فارغ ہوکر ملک کے طول وعرض میں دینی تبلیغی خدمات انجام دیتے ہیں ان مدارس میں جو غریب مستحق زکوٰۃ طلبہ ہیں ان پر رقم خرچ کی جاے جو صاحب نصاب کے گھر کے بچے ہیں انھیں مدرسے کی فیس کھانے کا پیسہ ہاسٹل کی رہاٸش بجلی پانی کی بل کی اداٸگی ہر حال میں کرنا چاہیے صاحب نصاب کے بچوں کو زکوٰۃ کی رقم سے بنے ہوے کھانے نہیں کھانا چاہیے تاکہ مستحق کے مال باطل طور پر نہ کھایا جاے جو طاقت رکھتے ہیں وہ فیس ادا کریں

آج مدارس کے لوگ ماہ رمضان میں
زکوٰۃ کی رقم وصولی کرنے کیلیے بڑے شہروں کا رخ کرتے ہیں یہاں تک کہ چھوٹے چھوٹے مکاتب چندہ جمع کرکے اسی زکوٰۃ کی رقم سے بڑے بڑے سرمایہ داروں کے بچوں کی تعلیم دینے والے مدرسین کو تنخواہ ادا کرتے ہیں جبکہ یہ کسی طرح سے درست نہیں ہے ایسے ہی کچھ مدارس محنتانہ کے طور پر چالیس پچاس فیصدی پر چندہ کراتے ہیں یہی وہ چیزیں ہیں جو ہمارے سماج کو تباہ و برباد کرتی ہیں ہم قرآن وسنت کے اصول کو بالاے طاق رکھکر مدارس چلاتے ہیں اور ناحق طور پر غرباء مساکین مستحقین زکوٰۃ کا حق مارتے ہیں اور ناحق طور پر ایک دوسرے کا مال کھاتے ہیں
اسلام مسلمانوں کی ترقی خوشحالی کیلیے ہمیں اسلامی ضوابط کی پابندی کرنی پڑے گی تاکہ ایک مستحکم معاشرہ تیار کیا جاسکے
علمائے دین اس معاملے میں اقدام کریں کہ زکوٰۃ کی رقم کہاں کہاں خرچ کی جاسکتی ہے
آج ڈھرلے سے ہم زکوٰۃ کی رقم سے مستحق غیر مستحق بچوں کو تعلیم دیتے ہیں انکو کھانا کھلاتے ہیں زکوٰۃ کی رقم سے گاڑیاں خرید کر کرایہ کی شکل میں اچھی خاصی رقم بھی اصولتے ہیں اسی طرح مستحقین زکوہ کے حقوق کو پامال کرتے ہیں
نظام زکوٰۃ پر اچھی طر ح عمل پیرا ہوکرمسلم سماج سے غربت بے روزگاری مفلسی کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے
کاش اتر جاے تیرے دل میں میری بات