لوگوں کی مدد ضرورکریں لیکن انہیں کیمرے کے سامنے ذلیل نہ کریں

تحریر ، محمد جمال اختر صدف گونڈوی

مذہب اسلا م میں ضرورت مندوں، غریبوں، محتاجوں و کمزوروں کی مدد کرنے پر بہت زیادہ زور دیا گیا ہے-
پھر وہ چاہے بھوکوں کو کھانا کھلانا ہو یا پیاسوں کو پانی پلانا-
اسلام کی اسی خوبصورتی کو دیکھ کر اغیار یہ کہنے پر مجبور ہو گئے تھے کہ جتنی اخوت و انسانیت اسلام میں پائی جاتی ہے دنیا کے کسی مذہب میں دیکھنے کو نہیں ملتی،
کیوں کہ پیغمبر اسلام ساری کائنات کے لئے رحمت بن کر تشریف لائے،
انہوں نے بلا تفریق قبیلہ و نسل تمام انسانوں کے ساتھ ہمدردی و بھائی چارہ کا درس دیا،
انسان ہی نہیں بلکہ جانوروں کے ساتھ بھی زیادتی کرنے سے سختی کے ساتھ منع فرمایا ،
اس ماڈرن دور میں مسلمانوں نے عبادات سے لےکر صدقات و خیرات تک سب ڈیجیٹل کر دیا ہے،
حاجی صاحبان جب حج کرنے کے لئے مکہ مکرمہ میں پہنچتے ہیں تو حج کے اغراض و مقاصد کو بھول کر پہلے کعبہ کو پیٹھ ایک مکروہ مسکراہٹ کے ساتھ سیلفی ضرور لیں گے اور وہیں سے تمام رشتہ داروں کو بھیجنا شروع کر دیں گے کہ دیکھ لو ہم نے کعبے کو بھی پیٹھ کے پیچھے کر دیا،
صرف اتنا ہی نہیں اس کے بعد جا بجا فوٹو بازی اور ویڈیو گرافی کرتے ہوئے اسی کیمرے کے ساتھ سارے ارکان حج مکمل کریں گے،
کچھ حاجی تو طواف کے دوران لائیو پروگرام دکھانے کی بھی کوشش کرتے ہیں،
ایسے ہی جب کوئی کسی مجبور کی مدد کرنے جاتا ہے تو سب سے پہلے اسے کیمرے کے سامنے کھڑا کرتا ہے اس کے بعد اسے راشن،کمبل، وغیرہ دیتے ہوئے فوٹو کھنچواتا ہے اور تمام سوشل میڈیا پر عام کرتا ہے،
ذرا سوچیں اس غریب کے رشتے داروں تک جب یہ فوٹو پہنچتی ہوگی تو ان کے دلوں پہ کیا گزرتی ہوگی، اور وہ غریب بیزاری قسطوں میں ذلیل ہوتا ہوگا، جب جب لوگوں کی نظروں سے وہ تصویر گزرتی ہوگی لوگ اس بیچارے کے بارے میں کیا سوچتے ہوں گے،
ایسے ہی مسجد و مدرسے میں کوئی صاحب جب کچھ چندہ دیتے ہیں تو بار بار اپنے نام کا مائک سے اعلان کرواکر پورے معاشرے کو بتاتے ہیں کہ ہاں ہم نے آج حاتم طائی کا رکارڈ توڑ دیا ہے،
بلکہ سخاوتوں کے سلسلے میں میں اس مقام پر پہنچ گیا ہوں کہ میرے مرنے کے بعد حاتم طائی سے بڑی میری ہی مزار بننی چاہئے،
کسی غریب کی عزت نفس کو ذلیل کرکے خود کو سخی سمجھنے کی بے وقوفی کرنے والوں کی سوشل میڈیا پر تعریف کرنے والے بھی کم نہیں ہیں ، انہیں اس مذموم کام سے روکنا چاہئے تھا لیکن
ایک دو زخم نہیں سارا بدن ہے چھلنی،
درد بیچارہ پریشاں ہے کہاں سے اٹھے،

سارے کے سارے ماشاءاللہ ،سبحان اللہ، واہ واہ، بہت خوب، لا جواب، لکھ کر انہیں ان کی غلطیوں سے روکنا اپنی زمہ داری نہیں سمجھتے،
دور عمر رضی اللہ عنہ میں یہ لوگ ہوتے تو انہیں سخاوت کا صحیح سبق مل گیا ہوتا،
ایسے لوگ ہسپتالوں میں اکثر دیکھنے کو مل جائیں گے، جہاں کسی مریض کے پاس دو چار لوگ ایک کیلے کو پکڑ کر باری باری فوٹو کھنچوا رہے ہوتے ہیں،
کچھ تو ایسے ہیں کہ سڑک پر حادثے میں زخمی افراد کی مدد کے بجائے ان کی ویڈیو بناکر شئیر کرنے میں مصروف ہوتے ہیں اور زخمی کراہ رہے ہوتے ہیں، اگر بر وقت ان کی مدد کر دی جائے تو زخمیوں کے لئے اتنی دشواری نہ ہو جتنی سارا خون بہ جانے کے بعد ہوتی ہے،
ایک مسلمان کو دیکھ کر لوگ ذہن میں ایک خیال ضرور لاتے ہیں کہ یہ اسلام کا ماننے والا ہے ضرور یہ اسلامی طریقے کا پابند ہوگا،
مگر افسوس کہ اکثر انڈین مسلم اور انکا کردار دونوں اسلام کے خلاف ہی نظر آتا ہے،
شادیوں کا سارا سسٹم سنت کے خلاف ریاکاری سے بھر پور چل رہا ہے،
وہاں بھی شروع سے آخر تک کیمرے کی پہرے داری میں سارا کام ہوتا ہے،
آج کل تو کوئی غریب دس بار ایسی شادیوں میں جانے کے بارے میں سوچتا ہے کہ وہاں مغلیہ سلطنت کے واثین کے شہزادوں والے لباس و جوتے کہاں سے لاؤں ، کسی ہسپتال میں عیادت کے لئے جاتے وقت کوئ بھی لفافہ نہیں لے جاتا ہے جب کہ وہاں مریض کو پیسوں کی سخت ضرورت ہوتی ہے ،
لیکن شادیوں میں موٹے موٹے لفافے کا زبردست چلن پڑ گیا ہے،
وہاں لفافہ لے جانا نہیں بھولتے ہیں،
کیا یہی ہمارا کلچر تھا؟
افسوس کہ ہر جگہ ریاکاریوں میں ہماری زندگی پھنسی ہوئی ہے اور ہم اس گھناؤنے ماحول سے باہر نکلنا بھی نہیں چاہتے ہیں،
تحفہ تحائف دینا بھی سنت ہے لیکن جب کوئی بھوک سے مر رہا ہو تو سب سے پہلے اس کے کھانے کا انتظام کرنا ایک مسلمان کی زمہ داری ہے کسی کی مدد کرنا، کسی کا سہارا بننا ، یا کسی بیمار کے علاج کے لئے روپئے پیسے کا بند و بست کرنا بہت بڑا کام ہے اگر خالص اللہ کے لئے کیا جائے، جب لوگ آپکو مخلص پائیں گے توآپ کے قریب آنا شروع کر دیں گے ،
بلکہ وہ بھی آپ کے اس نیک کام کا حصہ بننا پسند کریں گے اور آہستہ آہستہ آپکے پاس ایک جماعت موجود ہو جائےگی جو دوسروں کی مدد کرنے اور اسلام کا آفاقی پیغام عام کرنے میں آپ کی مددگار ہوگی،
یہ بات سب کو معلوم ہے کہ اچھے وقتوں میں کسی کے ساتھ بھلائی کا کام بہت یاد رکھی جاتی ہے لیکن کسی کے برے وقت میں جب کوئی سہارا بنتا ہے تو وہ انسان تا دم مرگ اپنے اس محسن کو نہیں بھول پاتا ہے، آج کے دور میں لوگ غریب رشتے داروں سے نظریں چراتے ہیں اور بڑے لوگوں کے ساتھ تعلقات رکھنے میں فخر محسوس کرتے ہیں، کچھ لوگ تو اپنی تقریبات میں غریب رشتے داروں کے لئے الگ انتظام کرنا شروع کر دئیے ہیں یہ چیزیں فقیر کے مشاہدے میں بہت بار آ چکی ہیں،
اگر آپ چاہتے ہیں کہ لوگ آپ کی دل سے عزت کریں تو آپکو مخلص بننا بہت ضروری ہے ،
لوگ اس وقت تک آپ کی بات نہیں مانتے جب تک کہ آپ کو نہ مان لیں
اس لئے ضروری ہے کہ پہلے خود کو منوائیں، اسلام کے قریب لانے کے لئے اسلام کو منوائیں، عزت و ذلت رب کے ہاتھ میں ہے اس لئے خود کی کوشش سے کوئی عزت دار نہیں ہوتا جب تک کہ اسے رب عزتیں نہ عطا کرے،
اگر آپ کے افعال میں خلوص و للہیت شامل ہے تو ہر حال میں رب آپ کو عزت عطا کرے گا،
سر بلندیوں، نوازشوں کے دروازے آپ پر کھول دےگا،
اگر ایسا نہیں ہے تو ساری زندگی آپ خیرات کرتے رہیں فوٹو کھنچواتے رہیں اس کا کوئ فائدہ نہیں،
حضرت عمر رضی اللہ عنہ بستی میں رات رات گشت کرتے تاکہ پتہ چل سکے کہ کوئی بھوکا تو نہیں سویا ہے، اور ضرورت مندوں تک ضروری اشیاء خود اپنے کندھوں پہ لاد کر اس کے گھر چپکے سے پہنچاتے تھے،
یہی کام تمام خلفاء کا رہا اور صحابہ کرام نے اسی روش پہ زندگیاں گزار دیں،
بحیثیت امت رسول [صلی اللہ علیہ وسلم] ہمارا بھی فرض بنتا ہے کہ ہم اسی طریقے پر چلیں جس پر چل کر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اللہ کی رضا حاصل کی-