تحریر:جمال اختر صدف گونڈوی

مذہب اسلام اپنی سادگی و سنجیدگی کی وجہ سے بھی دنیا بھر میں جانا اور پہچانا جاتا ہے، دیگر مذاھب کے مقابل اسلام میں سب سے زیادہ سہولیات و مراعات دی گئ ہے، نماز و روزہ سے لےکر حج و زکوٰۃ تک تمام اہم کام خاموشی کے ساتھ ادا کرنے کا حکم ہے، لیکن دور حاضر میں اسلام کے نام پر ہونے والے اکثر معمولات شور شرابے کے ساتھ ہی عمل پزیر ہوتے ہیں،
چاہے عید میلادالنبی صلی اللہ علیہ وسلم کا جلوس ہو یا پھر محرم الحرام کے موقع پر تعزیہ، ڈھول تماشے، یا ہماری شادیاں-
ان معمولات میں اکثر عوام الناس کا عمل دخل ہوتا ہے لیکن اکثر خود کو دین کا رہبر کہنے والے، خود کو جنت کا ذریعہ بتانے والوں کے یہاں
عرس مقدس کے نام پر صاحب مزار کے احاطے میں غیر مقدس عمل ثواب سمجھ کر کیا جاتا ہے یہ انتہائی افسوس ناک بات ہے،
دنیادار، بے عمل، فاسق و فاجر قوالوں کو بلاکر مزاروں پر خرافات کرنا اور ایک ایک دھن پر پیسوں کی نمائش کرتے ہوئے گڈی لٹانا اسلام کا طریقہ کبھی نہیں رہا اور نہ کبھی رہے گا،
مزاروں پر مزید خرافات جیسے عورتوں کا اژدہام،غیرشرعی منتیں ماننا، مرغا بکرا وغیرہ کی نیاز دلانے کو ضروری سمجھنا ان تمام خرافات کا اہلسنت سے کوئ تعلق نہیں ہے،
ماضی قریب سے بعض مدارس کے احاطے میں بھی مزامیر کے ساتھ قوالی کا اہتمام کیا جانے لگا ہے، جہاں لاکھوں کا مجمع اکٹھا ہوتا ہے اور فاسق قوالوں پر خوب گڈیاں لٹائی جاتی ہیں،
مدرسہ رسولِ خدا کا گھر ہے خدا کے لئے مدرسہ والوں یہ حرکتیں بند کر دو،
ارکین کمیٹی کی اجازت کے بغیر کوئی بھی مدرسے میں قوالی نہیں کروا سکتا،
لہٰذا اراکین کمیٹی پر توبہ لازم ہے، اور وہاں کے اساتذہ پر بھی لازم ہے کہ وہ اپنی صفائی دیں،
ورنہ اگلی قسط میں اساتذہ کے نام اور ان کے ایڈریس کے ساتھ مضمون لکھوں گا،
بعض جگہوں پر نام نہاد مولوی کو بھی رقص کرتے ہوئے دیکھا گیا ہے، ان کو لگتا ہے یہ سب ناٹک کرنے سے اللہ راضی ہو جائے گا تو وہ دھوکے میں ہیں،
اللہ و رسول کبھی بھی ڈرامے بازیوں سے راضی نہیں ہوتے،
اسلام میں ریاکاری کو شرک خفی کہا گیا ہے
مزاروں پر اکثر ریاکاروں اور پیسے والوں کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے، جن کے پاس پیسے ہیں پیر صاحب ان کے ہیں،
جن کے پاس پیسے نہیں پیر صاحب ان کے نہیں،
اگر پیر صاحب کو اپنا بنانا ہے تو پہلے سیٹھ بن کے آؤ، اور پھر قوالی میں سب سے آگے بیٹھو،
آج کل جلسے میں شرکت کرنا معیوب سمجھا جاتا ہے، بعض افراد چلے بھی جائیں گے تو وہاں علماء کے بیانات میں خامیاں تلاش کریں گے کبھی توفیق نہیں ہوتی کہ با ادب بیٹھ کر سنجیدگی سے قرآن و حدیث کی روشنی میں علمائے کرام کے بیانات سن سکیں،
جلسے گاہ کا متعدد چکر لگانے کے بعد یہ کہتے ہوئے اپنے گھر چلے جاتے ہیں کہ جلسے میں مزا نہیں آیا،
یہ وہی لوگ ہیں جو صرف مزا کے لئے جلسوں میں جاتے ہیں،
جنکو مزہ اور مجا کی تمیز نہیں وہ لوگ علماء پر انگلیاں اٹھاتے ہیں،۔ اعلیٰ حضرت امام اہلسنت نے مزامیر کے ساتھ قوالی کو حرام کہا ہے، لہٰذا جو بھی خود کو اہلسنت سے جوڑتا ہے اسے چاہیے کہ وہ ان حرام افعال سے کنارہ کش ہو جائے ، اس سے نہ صرف وہ گناہوں سے بچ جائے گا بلکہ اہلسنت بدنامی سے بھی بچ جائیں گے،
اس وقت سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ جگہ جگہ زمین چیر کر بابا نکلتے جا رہے ہیں یا پھر زبر دستی نکالے جا رہے ہیں، اور تیزی سے انکی مزاریں تعمیر کروائی جا رہی ہیں ، لوگ مزار کی تعمیر میں ثواب سمجھ کر چندہ بھی دے دیتے ہیں جبکہ یہ درست نہیں، جنکو مزاروں سے کمائی کرنا ہے وہ خود بنائے لوگوں سے کیوں مدد مانگتے ہیں؟
نہ بابا کا پتہ ہے نہ انکے شجرے کا ، نہ انکی ولایت ثابت ہے اور نہ ہی انکی جائے قبر ،
اسکے با وجود جگہ جگہ باباؤں کی مزاریں تیزی سے بن رہی ہیں،
جاہل گنوار عرس کے نام پر اسی مزار کے پوسٹر میں ایک طرف لیڈس جینس کی تصویر اور دوسری طرف علما کا نام چھپواتے ہیں اور عنوان عرس مقدس ڈالتے ہیں،
نام نہاد مولوی حضرات ایسے فرضی عرس کے جلسے میں جاتے ہیں اور رات بھر اس فرضی بابا کی کرامتیں بیان کرتے ہیں اور پہلے یہی لوگ فرضی باباؤں کو رحمة اللہ علیہ کا ٹائٹل دیتے ہیں اسکے بعد تمام قوم رحمة اللہ علیہ کہنا شروع کر دیتی ہے،
وہاں ہر سال میلا لگتا ہے چادریں فروخت ہونے لگتی ہیں، لوبان اور دھونی کے ساتھ ساتھ خاک مزار بھی اچھی قمیت میں بکنا شروع ہو جاتی ہے،
دوسرے دن مرد و عورت قوال اسی اسٹیج پہ آتے ہیں اور رات بھر قوالی کے نام پر مجرا ہوتا ہے،
نوجوانوں میں ایک نیا جوش ہوتا ہے اور وہ اسٹیج کے قریب کھڑے ہوکر تھوڑی دیر گڈی لٹاتے ہوئے رقص کرتے ہیں اسکے بعد اپنی لٹی ہوئی دولت پر احساس ندامت نہ کرتے ہوئے اپنی جگہ پر آکر بیٹھ جاتے ہیں،
اور یہ سلسلہ تب تک چلتا ہے جب تک جیب میں دس روپے تک بچے ہوتے ہیں،
پیسہ ختم عشق ختم ،
خاموشی سے اپنے گھر چلے جاتے ہیں
یہ ہے آج کا عرس مقدس،
اللہ تعالیٰ ہدایت عطا فرمائے آمین
ایسے برے دور سے گزرنے والی ملت اسلامیہ کے لئے کیا کوئی لائحہ عمل تیار کیا گیا ہے؟
کیا کوئ ہے جو قیادت کرے اور ان خرافات سے ملت کو نکال کر صحیح طور پر اہلسنت وجماعت کی روش پر چلنے کا درس دے؟
علمائے کرام کی تقاریر کا اب وہ اثر بھی نہ رہا جو کبھی ہوا کرتا تھا لیکن اس وقت مشائخ کی باتوں کا بڑا اثر ہوتا ہے،
ہر شیخ لاکھ دو لاکھ مسلمانوں کی باگ ڈور سنبھالے ہوئے ہے،
اگر تمام شیوخ اپنے اپنے مریدوں کو سختی سےتلقین کرنا شروع کر دیں تو بہت حد تک کامیابی مل سکتی ہے،
کچھ نہیں کرنا ہے صرف اور صرف پیروں کو اتنا اعلان کرنا ہے کہ جو شخص میری باتوں کو نہ مانے وہ میرا شجرہ واپس کر دے آج سے وہ میرا مرید نہیں،
اس اعلان کا اتنا بڑا انقلابی اثر ہوگا کہ ہندوستانی مسلمانوں کی زندگی میں ایک نئے دور کا اضافہ ہو جائے گا ،
یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ مسلمان بھلے ہی اپنے والدین کی بات نہ مانتا ہو لیکن اپنے شیخ کو کبھی ناراض نہیں کر سکتا ، کبھی بھی اپنے پیر کی کوئ بھی بات سے انکار نہیں کر سکتا،
شرط یہ ہے کہ اسکو یقین ہو جائے کہ میری مریدی خطرے میں پڑ گئ ہے،
اس وقت عوام اہلسنت ثواب کی نیت سے ستر فیصد گناہ کر رہے ہیں،
انکی اصلاح ہونی چاہئے اور ضرور ہونی چاہیے ،
اسلام میں دعوت و اصلاح کے کئ پہلو ہیں ،
انہیں اپنا کر نہ صرف مسلمانوں کی اکثریت کو صحیح معنوں میں دین سمجھا سکیں گے بلکہ انہیں برباد ہونے سے بھی بچایا جا سکتا ہے،
نام نہاد علمائے کرام سے گزارش ہے کہ فرضی بابا ،فرضی عرس وغیرہ میں شرکت سے اجتناب کریں ،
کیوں کہ عوام آپ کو دیکھ کر سمجھتی ہے کہ آپ لوگ بھی عالم ہیں اور آپ کی لایعنی تقریروں کو قرآن و حدیث کا فرمان سمجھ بیٹھتی ہے،
چونکہ آپ لوگ بھی علمائے کرام کی طرح داڑھی اور ٹوپی لباس وغیرہ اختیار کئے ہوئے ہیں،
بلکہ آپ لوگ تو اصلی عالم سے بھی دو ہاتھ آگے نکل چکے ہیں،
کاش لباس کی طرح کردار بھی چمکدار ہو جاتا،
علمائے کرام کبھی بھی کسی دور میں اس قسم کی رذیل حرکتوں میں ملوث نہیں رہے،
لہٰذا آپ لوگ علمائے کرام کو بد نام نہ کریں،
آپ لوگوں کے پاس تعلیم نہیں ہے تو کوئ بات نہیں علمائے کرام سے علم سیکھیں اور ہرگز ہرگز تقریر نہ کریں، جب تک کہ علم نہ آ جائے،
نہ ہی کسی کو مسئلہ بتایئں یہ کام علماء کرام کا ہے، لوگوں کو سمجھانے کی کوشش کریں کہ میں عالم نہیں ہوں ، لہٰذا آپ لوگ علماء سے مسئلہ پوچھا کریں،
کسی بھی ملا جی کو حق نہیں کہ وہ بغیر علم سیکھے خود کو عالم کہلواتا پھرے اور قوم کو گمراہ کرے،
علماء انبیاء کے علم کے وارث ہوتے ہیں، علماء کے لئے سوراخ میں چیونٹیاں اور سمندر میں مچھلیاں دعائیں کرتی ہیں ،
وہ اس لئے کہ علما کے پاس نبی کے علم کی امانت ہے جو کہ امت میں تقسیم کرتے ہیں ،
اسی وجہ سے انہیں یہ فضل حاصل ہے ،
علمائے کرام کو اپنا منصب اور اپنا فرض قطعی نہیں بھولنا چاہئے ،
حق گوئی علما کی پہچان ہے ،
مذہب حقہ کی وکالت علما نہیں کریں گےتو کون کرےگا ؟
قوالی کے نام پر جگہ جگہ مزاروں پر مجرے بازی بند ہونی چاہئے ،
اس سے نہ صرف مال برباد ہوتا ہے بلکہ اعمال بھی بری طرح سے برباد ہوتے ہیں،
عرس کمیٹی کو چاہئے کہ مزامیر کے ساتھ قوالی بند کروائیں ، علمائے کرام کے بیانات، قرآن خوانی، صدقہ و خیرات کے ذریعے بہتریں عرس کریں،
بعض جگہوں کو چھوڑ کر اکثر عرس میں قوالی کو فرض کر لیا گیا ہے،
ایسا لگتا ہے کہ جب تک فاسق و فاجر قوال نہیں گائیں گے تب تک عرس مانا ہی نہیں جائے گا،
اس قبیح حرکت کو صوفی طریق سے جوڑ دیا گیا ہے،
جبکہ کوئ بھی صوفی اس وقت تک صوفی ہو ہی نہیں سکتا جبکہ وہ شریعت کا مکمل پاسدار نہ ہو جائے،
مگر آج کل خانقاہوں پر اپنی خواہشوں کی بھوک مٹانے کے لئے تصوف کا نام دے دیا جاتا ہے،
اور پھر اسی فرضی تصوف کا سہارا لےکر قوالی سمیت تمام حرام کام اپنے لئے جائز کر لئے جاتے ہیں،
ہندوستان کی تاریخ میں کوئی ایسا صوفی نہیں گزرا جو ان حرام کاموں کا حمایتی رہا ہو،
ان لوگوں نے رب العالمین کو رب المسلمین اور رحمت العالمین کو رحمت المسلمین سمجھ لیا ،
اسکے بعد تصوف کو ہرمونیا ،ڈھول ،نگاڑا، سے جوڑ دیا،
اسلامی حکومت ہوتی تو آج کل کے تمام قوال جیل میں ہوتے اور فرضی باباؤں اور فرضی عرس کمیٹی پر دین میں انحراف کا مقدمہ چلتا ، ان لوگوں نے مسلمانوں کی محنت کی کمائی کو عرس، چادر، گاگر،ڈھول تعزیہ و نگاڑا میں برباد کرکے رکھا ہے،
آج کل کے تمام اعراس کی تقاریب پر نظر ڈالیں تو ایک بات سب میں مشترک نظر آئے گی ،
وہ ہے دولت اندوزی ،
گویا کہ صاحب عرس سے ان کو کوئی مطلب نہیں ہے،
نہ ان کے فرمان سے مطلب ہے اور نہ ہی ان کے حالات زندگی سے،

نہ سمجھوگے تو مِٹ جاؤگے اے ہندی مسلمانوں،
تمہاری داستاں تک نہ ہوگی داستانوں میں،