کہیں ہمارے اندر یہ برائیاں تو نہیں؟

از:(حافظ) برکت علی قادری
مدرس شعبۂ حفظ:دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف، باڑمیر(راجستھان)

آج جس ماحول اور معاشرہ میں ہم اپنی زندگی بسر کر رہے ہیں اس کا اسلامی طرزِ زندگی سے تعلق نہایت ہی کمزور ہو چکا ہے،اسی کا نتیجہ ہے کہ آج ہمارے خیالات،احساسات، اخلاقیات، معاملات، عبادات، غرض کی ہر شعبۂ زندگی میں ابتری و بدحالی نظر آتی ہے، آج ہم کہنے کے تو مسلمان ہیں مگر الا ماشاء اللہ ہماری اکثریت دین اسلام سے بے بہرہ ہے،خاص طور پر عمل کے میدان میں تو ہم انتہائی پیچھے ہیں،کبھی کبھی تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمارا اسلام سے رشتہ صرف نام کی حدتک رہ گیا ہے- گزشتہ امتوں میں جو برائیاں انفرادی طور پر پائی جاتی تھیں آج بدقسمتی سے وہ تمام برائیاں اجتماعی و انفرادی دونوں طریقے پر موجود ہیں، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ زمانہ بھر کے لیے ایک مسلمان کا کردار اسلام کی خوبیوں کا آئینہ ہوتا، لیکن افسوس کے ساتھ آج اس حقیقت کے اعتراف سے نظریں نہیں چرائی جا سکتی کہ ہم مسلمانوں کی بد اعمالیوں کے نتیجہ میں اسلام پر بھی لوگ انگلیاں اٹھانے لگے ہیں حالانکہ کسی بھی مسلمان کی بد اعمالیوں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے، اسلام تو ہمیں ہر طرح کی برائیوں سے بچنے کی سخت تاکید و تلقین کرتا ہے آئییے ہم آپ کے سامنے کچھ اہم برائیاں پیش کرتے ہیں کہ اگر خدا نہ خواستہ ہم ان برائیوں و بیماریوں میں مبتلا ہوں تو ان سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کریں-

کہیں ہمارے اندر یہ بیماریوں تو نہیں؟ ★ نماز نہ پڑھنا، نماز میں کوتاہی کرنا، سنت کے خلاف پڑھنا، گانے گانا،گانا سننا-★جھوٹ بولنا یا جھوٹ پر عمل کرنا-★ غیبت کرنا یا غیبت سننا-★دوسروں پر ناحق تہمت لگانا،کسی کو بلا وجہ بدنام کرنا-★اپنے عیبوں کو خوبی سمجھنا اور اپنے عیبوں اور گناہوں کے لئے جواز تلاش کرنا و بہانے بنانا-★ دوسروں کے عیوب تلاش کرنا، دوسروں کے عیبوں کی تاک میں رہنا- ★رزق کے حصول میں بے پرواہی کرنا،حلال و حرام میں تمیز نہ کرنا- ★چغلی کرنا، چغلی سننا، چغلی پر عمل کرنا، ایک دوسرے میں نفرت پیدا کرنا، لوگوں کے درمیان آپس میں پھوٹ ڈالنا- ★ ایک دوسرے پر جادو وسحر کرنا یا کروانا- ★رشوت کو گفٹ کے نام لینا دینا- ★ٹی وی پر فحش پروگرام دیکھنا، ٹی وی دیکھنے والے کو معاشرے کا اعلیٰ فرد تصور کرنا یا معزز سمجھنا- ★سنت سے نفرت کرنا، سنت پر چلنے والوں کو بےوقوف اور کم تر سمجھنا، حقارت سے دیکھنا، خلاف سنت کام کرنے والوں کو معزز سمجھنا، یہود ونصاریٰ کے طریقوں کو اچھا سمجھنا، اس کی قدر کرنا- ★غیروں کے لباس وکلچر کی مشابہت اختیار کرنا، داڑھی نہ رکھنا، داڑھی منڈانے والوں کو معزز اور انہیں خوب صورت سمجھنا-★گناہ کو گناہ نہ سمجھنا، اعلانیہ گناہ کرنا اور اس پر فخر کرنا، سنت پر عمل کرنے سے گھبرانا یا شرمانا-★کسی سے حسد کرنا ،بغض،حسد اور کینہ رکھنا- ★کھڑے ہو کر پانی پینا یا کھاناکھانا-★والدین کی نافرمانی کرنا، والدین کو جاہل و بےوقوف سمجھنا، ان کو حقارت سے دیکھنا، بیوی کا غلام بننا-★بد نظری کرنا، نا محرم عورتوں کو دیکھنا، نا محرم مردوں کو دیکھنا، اپنے بدن کی نمائش کرنا، غیر محرم کا دل لبھانا یا اسے متوجہ کرنا- ★پردہ نہ کرنا، باریک لباس پہننا، تنگ یا چست لباس پہننے والیوں کو معاشرے کی معزز خواتین سمجھنا، با پردہ عورت اور باحیا لباس پہننے والیوں کو بیوقوف، جاہل اور حقیر سمجھنا-★دھوکہ دینا اور دھوکے باز کو عقل مند سمجھنا-★اسلامی تعلیم حاصل کرنے والوں کو بےوقوف اور گھٹیا سمجھنا- ★ڈانس سیکھنے سیکھانے پر فخر کرنا، اپنے کو بڑا اور دوسرے کو حقیر سمجھنا-
جس طرح جسمانی بیماریوں کے علاج اور اچھی صحت کے لیےاچھی غزا اورصاف پانی و ہواضروری ہے اسی طرح روحانی بیماریوں کا علاج بھی نہایت ضروری ہے مثال کے طور پر آپ کے پاس ایک انڈہ ہے اور ان گناہوں کو آپ سوئیاں تصور کریں پھر ان سوئیوں سے انڈے میں سوراخ کریں تو کیا پھر بھی انڈہ صحیح سالم رہے گا؟ ظاہر ہے کی ہرگز نہیں یا کسی آدمی کو کینسر، شوگر،ٹی بی، یرقان، نزلہ زکام اور بخار ہو تو کیا وہ پھر بھی اپنے آپ کو صحت مند تصور کرے گا؟ ہرگز نہیں،اس لیے آج بھی وقت ہے! آئیں ہم سب اپنے گناہوں سے توبہ کر کے نیک کاموں کی انجام دہی میں لگ جائیں تاکہ ہمیں کامیابی نصیب ہو جائے اور یہی حکم ربی بھی ہے، جیسا کہ فرمان خداوندی ہے، اور سب مل کر توبہ کرو تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ’ (سورۃ النور)
اس کا بہترین علاج یہ ہے کہ ہم سچی توبہ کریں اور پھر توبہ پر قائم رہیں، اللہ کے خوف کو ہمیشہ پانی جیسا ضروری سمجھیں، استغفار کو اپنا لباس سمجھیں،موت کو حاضر سمجھیں، دنیا کو معمولی، دارالعمل اور مسافر خانہ سمجھیں، اور سنت کو اپنی جان سے بھی زیادہ مقدس سمجھیں، اللہ تعالیٰ کے ذکر اور تلاوت قرآن کو اپنا سانس سمجھیں، زبان سے ذکر کریں اور دل و دماغ سے غور و فکر کریں کہ کہیں ایسا نہ ہو جائے کہ قرآن وسنت کا خوبصورت گلدستہ ہمارے ہاتھوں سے گر جائے، اپنے گناہوں پر روتے رہیں،معافی مانگتے رہیں اور گناہوں سے اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کرتے رہیں، تعوذ اور لاحول پڑھتے رہیں، استغفار اور مغفرت طلب کرتے رہیں، اور استغفار پر مشتمل ذکر بھی کریں، زیادہ سے زیادہ درود شریف پڑھیں، تاکہ ہمارے اعمال پر درود شریف کی خوشبو کا چھڑکاؤ ہو جائے، اللہ تعالیٰ کی رحمت کی امید رکھیں پھر دیکھیں کی ارحم الراحمین دونوں جہانوں کی خوشیاں دیتا ہے کہ نہیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “اس گھر میں رحمت کے فرشتے داخل نہیں ہوتے جس گھر میں کتا یا تصویر ہو” آپ بتائیں جب ہمارے گھروں میں پہلے سے اللہ تعالیٰ کے قہر و عضب کا بھرا ہوا ٹرک ٹی وی موجود ہے جس میں ہم فحش پروگرام دیکھتے رہتے ہیں تو اللہ کی رحمت کی امید کیسے رکھیں گے؟ کیا آگ اور پانی کی دوستی ممکن ہے؟ اسی گھر میں ٹی وی یا موبائل پر غلط پروگرامات بھی چل رہے ہیں اور اسی گھر میں دعائیں بھی مانگی جا رہی ہیں ہاۓ افسوس! ہر گھر میں کتنی پریشانیاں ہیں پریشانیوں کی وجہ سے ہر آدمی کا دم گھٹ رہا ہے مگر اس کے باوجود بھی ایمان میں بے برکتی کا ڈاکو ٹی وی اور دیگر خرافات کو ہم گھر سے نہیں نکالتے!
آج کے مسلمانوں کو ٹی وی ناچ گانے اور غیر شرعی چیزوں سے محبت ہے’اگر کسی آدمی سے بولو کے رات کو دو بجے اٹھ جاؤ اور دو رکعت نفل پڑھ لو تو شاید ہی اس کے لئے وہ تیار ہو جائے، ماں کو گھر سے نکال دو اس کے لئے تیار ہے مگر کسی کو کہ دو کہ ٹی وی کو گھر سے نکال دو یا جو بھی بداعمالیاں ہے یا غلط باتوں کے ہم مرتکب ہیں ان کو چھوڑ دو اور اس سے توبہ کر لو تو اس کے لئے ہم تیار نہیں،اس کی وجہ یہ ہے کہ شاید ہمیں اور اس دور کے لوگوں کو باقاعدہ اپنی موت کا یقین نہیں-[افسوس صد افسوس]
ہمیں چاہیے کہ ہر طرح کی بداعمالیوں سے خود کو اور اپنے بال بچوں اور رشتے داروں کو بچانے کی کوشش کریں اور یہی اللہ رب العزت کے فرمان کا مطلب بھی ہے جیسا کہ ارشاد ربانی ہے”تم لوگ اپنے آپ کو اور اپنے اہل وعیال کو (جہنم کی) آگ سے بچاؤ”
اللہ رب العزت ہم سب مسلمانوں کو ہر طرح کی برائیوں سے بچنے اور نیک کاموں کے کرنے کی توفیق عطا فرمائے! (آمین!)