*کچھ ایسی اخلاقی برائیاں: جو معاشرے کے لیے ناسور ہیں!*

*از:(مولانا)باقرحسین قادری انواری*
*دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف، پوسٹ:گرڈیا، ضلع:باڑمیر(راجستھان)*

جس طرح کچھ باتیں اعلیٰ اخلاق میں شمار کی جاتی ہیں اسی طرح کچھ چیزیں اخلاقی خرابیاں سمجھی جاتی ہیں انہیں دنیا والے پسند نہیں کرتے اور ان کے حاملین لوگوں کی نظروں میں پسندیدہ نہیں

قرآن کریم اور رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم کی سیرت کی روشنی میں بھی انہیں برا مانا گیا ہے اور آخرت میں عذاب الٰہی کا سبب مانا گیا ہے، ان میں جھوٹ، لالچ،ریاکاری، غیبت اورچغلی جیسی برائیاں ہیں اورساتھ ہی ساتھ ظلم، منافقت، تکبر اور ان جیسی دوسری خرابیاں ہیں

ظلم کا لفظ قرآن و حدیث میں وسیع مفہوم میں استعمال کیا گیا ہے اور اللّٰہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ “یہ سمجھ لینا کہ اللّٰہ ظالموں کے عمل سے غافل نہیں ہے” (سورۂ ابراہیم )۔

اب آئیئےمعاشرے میں پھیلی ہوئی کچھ اہم برائیوں کو درج کرتے ہیں جن سے ہم سب مسلمانوں کو بچنا بہت ہی ضروری ہے۔

*جھوٹ:*

جھوٹ وہ اخلاقی خرابی ہے جس کی مذمت اسلام ہی نہیں بلکہ دنیا کے تمام مذاہب میں بیان کی گئی ہے، جھوٹ بولنے والے کی حیثیت معاشرے میں خراب ہو جاتی ہے اور اس کی باتوں پر لوگ بھروسہ نہیں کرتے ہیں۔

اسے اسلام نے ایمان کے منافی صفت مانا ہے، اس کی ایک بڑی خرابی یہ ہے کہ ایک جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کے لیے سو جھوٹ بولنے پڑتے ہیں اور یہ سلسلہ چل پڑتا ہے، حالا نکہ کبھی نہ کبھی جھوٹ کی پول بھی کھل جاتی ہے اور پھر جھوٹے کو شرمندہ ہونا پڑتا ہے ،قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں بار بار اس کی خرابی بیان کی گئی ہے اور ایک جگہ فرمایا گیا ہے کہ “جھوٹوں پر اللّٰہ کی لعنت ہے”۔

*غیبت وچغلی:*

کسی کی اس کے پیٹھ کے پیچھے برائی وچغلی بیان کرنے کو غیبت کہتے ہیں، یہ بھی اسلام کی نظر میں ایک سنگین جرم اور برا اخلاق ہے،اس کے سبب غلط فہمیاں جنم لیتی ہیں اور آپس میں لڑائیاں بھی ہو جاتی ہیں

قرآن کریم میں اسے مردہ بھائی کا گوشت کھانے کی طرح قرار دیا گیا ہے اور رسول اللّٰہ صلّی اللّہ علیہ وسلّم نے بھی اس کی سختی سے ممانعت فرمائی ہے، ایسا کرنا بندوں کے حقوق کی خلاف ورزی بھی ہے لہٰذا غیبت وچغلی سے ہر حال میں پرہیز کرنا چاہیے۔

*فخر و غرور:*

فخروغرورصرف اللّٰہ کو زیبا ہے،وہ سب سے بلند و برتر ہے، انسان مٹی سے پیدا کیا گیا ہے اور اسے خاکساری ہی زیب دیتی ہے اسی لئے انسان کو لازم ہے کی وہ خاکساری جیسی صفت اپنائےاورفخروغرورسےخود کودور رکھے، زمین پر گھمنڈ سے اکڑ کر چلنے کی قرآن کریم میں سخت ممانعت آئی ہے، اصل میں شان معبودیت اور عبدیت کےبیچ فخر و غرور کا فرق ہے

لہٰذا یہ خدائی صفت صرف خدائے بزرگ و برتر کو ہی زیب دیتی ہے ،قرآن کریم میں ہے کہ “زمین پر اکڑ کر نہ چلو” اس لیے تکبّر وغرور کرنا کسی مسلمان کو جائز نہیں ہے،کیوں کہ یہ قرآن پاک میں اللّٰہ جلّ جلالہ کی صفت بیان کی گئی ہے، اور تکبّر کرنا اسی کو زیبا ہے ،اگر کوئی تکبّر کرے گا تو لازمی طور پر مارا جائے گا جیسا کہ شیطان لعین صرف تکبّر کی بنا پر مارا گیا۔

*مکر و فریب کرنا:*

ہرمسلمان کو مکر و فریب اور دغا بازی سے بچتے رہنا چاہیے، یہ ذلیل ورزیل خصلتیں ہر گز مسلمان کے شایان شان نہیں، نہ خود کسی کے ساتھ ایسی گندی حرکتیں کریں اور نہ کسی کو ایسی حرکتیں سکھائیں، خاص کر عورتوں کے مکر سے ہر ممکن بچتار ہے کیوں کہ قرآن پاک میں مکر کو بہت بڑاا کہا گیا ہے، نیز کسی غیر عورت کے ساتھ تنہائی میں نہ بیٹھے کہ یہ زہر قاتل ہے۔

*غصّہ کرنا:*

غصّہ کرنا ایک مسلمان بلکہ کسی انسان کے ہرگز شایان شان نہیں آج کل لوگ بات بات پر جھگڑتے ہیں اور نوبت قتل و خوں ریزی تک پہنچ جاتی ہے، اگر مسلمان اسلامی تعلیمات کے مطابق غصّہ پر قابو پا لے اور ایسے مواقع پر صبر و تحمّل سے کام لے تو پورا معاشرہ خوشی ومسرّت کا گہوارہ بن سکتا ہے۔

*عیب ڈھونڈھنا:*

کسی کے عیب تلاش کرتے رہنا اور اس کی ٹوہ میں لگے رہنا بہت ہی ناپسندیدہ کام ہے، اللّٰہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں مسلمانوں کو اس برے کام سے سختی سے منع کیا ہے، اللّٰہ تعالیٰ خود بھی ستّار یعنی عیب پوش ہے اور لوگوں کو بھی دوسروں کے عیب چھپانے کا حکم دیتا ہے اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم کسی کی عیب جوئی نہ کریں اور جہاں تک ہوسکے لوگوں کی عیب پوشی کریں۔

*فضول خرچی کرنا:*

ہر مسلمان کو فضول خرچی سے بچنا چاہیے یہ ایک گناہ کا کام ہے اور رب کریم نے قرآن کریم میں فضول خرچی کرنے والوں کو شیطان کا بھائی قرار دیا ہے، شریعت اسلامیہ ہر کام میں مسلمانوں کو میانہ روی کا حکم دیتی ہے

لہٰذا نہ بخیلی کی جائے اور نہ فضول خرچی کی جاے بلکہ درمیانی راستے کو اپنایا جاے اسی میں ہر مسلمان کی بھلائی ہے۔

*حسد کرنا:*

حسد کرنا بہت بری عادت ہے،حسدیہ ہے کہ کسی کی ترقّی یا کام یابی کو دیکھ کر دل ہی دل میں یہ سوچا جائے کہ ہائے: اس کو یہ چیز کیوں مل گئی؟ ایسا سوچنا گناہ ہے،ہاں!رشک کرنا جائز ہے، اور رشک یہ ہے کہ کسی کے پاس کوئی نعمت دیکھ کر خوش ہو اور خدا سے اپنے لیے اس نعمت کےملنے کی دعا کرے۔

*ظلم کرنا:*

کسی پر ظلم کرنا یہ بھی بہت بڑا گناہ ہے، ظلم نہ دوسروں پر کیا جائے اور نہ اپنی جان پر، ظالم افراد اس روئے زمین پر بدترین لوگ ہیں ،ان کا آخر کار انجام بہت برا ہوگا، قرآن پاک میں ہے کہ “ظالموں کا حشر ان کو عنقریب معلوم ہو جاے گا”۔

*کسی کو تکلیف دینا:*

کسی مسلمان بھائی کو زبان یا ہاتھ یا کسی بھی چیز سے تکلیف دینا ناجائز اور گناہ ہے حضور نبی کریم صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم نے فرمایاکہ” مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں” بلکہ جہاں تک ہوسکے لوگوں کی حاجت روائی [ضرورتوں کو پوری] کی جائے

بارگاہ ربِّ ذوالجلال میں دعا ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ ہم سبھی مسلمانوں کو ہر طرح کی اخلاقی وسماجی برائی سے بچنے کی توفیق عنایت فرمائے

تحریر: باقرحسین قادری برکاتی انواری
خادم:دارالعلوم انوارِ مصطفیٰ

سہلاؤ شریف، باڑمیر، (راجستھان)۔