پیر سید عمر علی شاہ صاحب ترمذی نقشبندی رحمۃ اللہ علیہ سرہالی شریف کا تذکرہ ۔
ڈاکٹر محمد رضا المصطفی۔
پیر سید عمر علی شاہ صاحب 1930ءمیں سید نور حسین شاہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ کے گھر رانیوال سیداں پیدا ہوئے۔اپ مشہور صوفی بزرگ سید میراں یحییٰ رحمتہ اللہ علیہ کی اولاد میں سے تھے اور نجیب الطریفین سید تھے۔
ابھی چار سال کی عمر تھی کہ والد محترم سید نور حسین شاہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ انتقال فرما گئے ۔بچپن سے ہی یتیم ہوگئے آپ کی ابتدائی تعلیم و تربیت آپ کی والدہ محترمہ مشفقہ نے کی ۔اور آپ کی کفالت آپ کے دادا جان سید حسین شاہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے کی ۔اسکول میں پرائمری تک تعلیم حاصل کی۔روحانی تعلیم و تربیت کے لیے پیر سید عمر علی شاہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے گجرات کے مشہور بزرگ پیر سید شہنشاہ ولایت شاہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ کے دست حق پر سلسلہ نقشبندیہ میں بیعت کی۔ اور حضرت پیر سید حاجی احمد شاہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے آپ کو تمام اوراد و وظائف اور سلسلہ عالیہ نقشبندیہ کی خلافت سے نوازا۔

معاش کے حصول کے لیے آپ نے محکمہ پولیس میں ملازمت بھی کی۔1952میں آپ محکمہ پولیس میں سولہ روپے تنخواہ پر بھرتی ہوئے، آپ کی ڈیوٹی جیل میں تھی جہاں پر قیدیوں کے لواحقین سے ملاقات کروانی ہوتی تھی ۔پیر سید عمر علی شاہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ کا بیان ہے اگر میں چاہتا تو اس منصب سے فائدہ اٹھاتے ہوئے روزانہ کے ہزاروں روپے کما سکتا ۔لوگ بڑی سفارشوں سے جیلوں میں ڈیوٹی لگواتے ہیں کہ وہاں پر مال کمانے کے بہت زیادہ مواقع ہوتے ہیں لیکن اللہ تعالی نے لقمہ حرام سے محفوظ رکھا ساری زندگی حلال کمایا اور اپنے اہل و عیال کو حلال کھلایا۔

پولیس کی نوکری میں آپ نماز پنجگانہ کے علاوہ جس شہر میں ڈیوٹی ہوتی وہاں کے مزارات اولیاء کی حاضری کے لیے اہتمام سے جایا کرتے تھے۔۔1975ء کو آپ نے پولیس کی نوکری کو خیرباد کہہ دیا ۔دراصل آپ کی ہمشیرہ صاحبہ بیوہ ہو گئی تھیں ۔ان کی خدمت کے لیے اور آستانہ عالیہ مقدسہ چھالے شریف میں علم دین کی ترویج و اشاعت کے لئے آپ نے اپنی نوکری کی قربانی دی ۔حالانکہ پینشن کو ایک سال رہتا تھا آپ نے کوئی پنشن نہ لی۔ اتنی بڑی قربانی اور ایثار کا مظاہرہ کیا اور کبھی بھی اس کا کریڈٹ لینے کی کوشش نہ کی۔
آستانہ عالیہ مقدسہ چھالے شریف پر آپ کی خدمات کا دورانیہ 1975 تا 1992 تک ہے ۔

1992ء میں آپ اپنے گھر سرہالی شریف تشریف لے آئےپیر سید عمر علی شاہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے زندگی میں بے شمار حج اور عمرے کیے تھے مگر کبھی بھی ان کا اظہار نہیں کیا اور نہ ہی اپنے نام کے ساتھ الحاج وغیرہ لکھوایا آپ اپنے نام کے ساتھ کوئی لقب بھی نہیں لکھواتے تھے ۔اتنے بڑے شیخ طریقت ہونے کے باوجود آپ نے کوئی سیکر ٹری نہیں رکھا ہوا تھا سب سائلین کے فون خود سنتے ۔مہمانوں کو چائے کھانا بھی خود لا کر عطا فرماتے یہ کام کسی خادم اور نوکر سے نہیں کرواتے تھے ۔

آپ شب زندہ دار ،تہجد گزار پنجگانہ نماز باجماعت کے پابند،نوافل کی کثرت کرنے والے ذکر و اذکار اور معمولات پابندی سے نبھانے والے تھے ۔تلاوت قرآن پاک پابندی کے ساتھ فرماتے۔۔بڑھاپے کے باوجود رمضان المبارک کے تمام روزے رکھتے ،نماز تراویح باجماعت مسجد میں ادا فرماتے ۔علم دین سے بے حد محبت فرماتے اپنے مریدوں کے بچوں کو علم دین کی ترغیب دلاتے تھے ۔محفل میں موجود علمائے کرام کی عزت و تکریم فرماتے تھے۔

آپ لوگوں کی دل جوئی کا بہت خیال رکھتے تھے ۔اپ نے اپنے کو خلق خدا کی خدمت کے لیے وقف کر رکھا تھا ،دن ہو یا رات غریب سے غریب بندہ یا کوئی امیر انسان آپ کو بلانے کے لیے حاضر ہو گیا اپ بلا تامل ،بغیر ناز نخرے اس کے ساتھ چل پڑتے کوئی گاڑی لاتا تو گاڑی میں بیٹھ جاتے کوئی رکشہ لاتا تو رکشے میں بیٹھ جاتے کوئی موٹر سائیکل لاتا تو موٹر سائیکل پر سوار ہوجاتے کئی لوگ پیدل آتے تو ان کے ساتھ پیدل ہی چل پڑتے۔پھر کبھی کسی نے کوئی خدمت کی تو اس کو بھی دعا دی کسی نے کچھ نہیں دیا تو اس کو بھی دعائیں دیں ۔آپ کی دعا کا یہ جملہ بڑا مشہور اور ہر زبان زد عام تھا یا اللہ رکھیں شان نال ،ماریں ایمان نال ۔آپ کے اس انداز دل نوازی نے لاکھوں لوگوں کو آپ کا گرویدہ بنا رکھا تھا عام وخواص، امیر وغریب ،چھوٹےو بڑے سب آپ کی محبتوں کے اسیر تھے۔

ایک دفعہ راقم الحروف اپنے نھنے منے بیٹے کے ساتھ قبلہ پیر صاحب کے ساتھ ایک دعوت میں شریک تھے سب نے کھانا کھا لیا سب دعا کے انتظار میں تھے کہ پیر صاحب دعا فرمائیں تاکہ مجلس برخاست ہو پیر صاحب نے فرمایا یہ بچہ کھانا کھا لے پھر دعا کرتے ہیں ادھر نھنا منا کاکا چھوٹے چھوٹے لقمے لے کر کھانا کھا رہا تھا۔۔کچھ گرا رہا تھا۔۔کچھ کے ساتھ کھیل رہا تھا پیر صاحب نے سختی سے منع کیا کہ بچے کو کوئی کچھ نہ کہے اس کو اپنی مرضی کے مطابق کھاناکھانے دیں الغرض بچے نے جب کھانا ختم کیا تو پھر پیر صاحب نے دعا فرمائی۔۔بچے کے ساتھ شفقت و لطف اور اس کی دل جوئی کا یہ انداز آج بھی دل پر نقش ہے

آپ ہمہ وقت باوضو رہتے تھے۔ہمیشیہ سفید لباس پہنتے اور اس کے اوپر عمامہ شریف اس کے اوپر بڑی سفید چادر پہنتے تھے۔اپ سادہ طبعیت اور درویش منش انسان تھے۔طبعیت میں حد درجہ سادگی اور نفاست کا غلبہ تھا۔نخوت و تکبر انھیں چھو کر بھی نہیں گزرا تھا۔اپ محفل میں خاموشی سے آکر بیٹھ جاتے ،ہٹو بچو کی صداؤں سے تنفر تھا ،چاہتے تو مریدوں کی فوج ظفر موج اپنے استقبال کے لئے بھیج سکتے جیسا کہ عام چلن ہے مگر ساری زندگی عاجزی و انکساری اختیار فرمائی۔ ۔پیر سید عمر علی شاہ صاحب بے شمار اوصاف و کمالات کا منبع تھے مگر ہمیشہ اپنے آپ کو چھپاتے رہے ۔حب جاہ اور نمود و نمائش سے بچتے رہے۔

آپ گوناگوں اوصاف کے حامل انسان تھے۔کچھ کمالات وہبی تھے کچھ کمالات کسبی تھے ۔علو المرتبت پیر ہونے کے باوجود انتہائی عاجزی اور انکساری کا اظہار فرماتے ۔گندی نالی میں اخبار یا کوئی مقدس کاغذ دیکھتے خود اٹھا لیتے ،زمین پہ روٹی یا رزق پڑا ہوا دیکھ کر بھی خود اٹھا لیتے تھے ۔اپ کی انفرادی خصوصیت آپ کی طویل دعا ہوتی تھی آپ کو سینکڑوں مقدس نام ازبر تھے بشمول انبیاء کرام علیہم السلام ،اہل بیت اطہار علیہم الرضوان ،صحابہ کرام علیہم الرضوان اور اولیائے کاملین رحمہم اللہ اجمعین کے اسمائے گرامی ۔اپ دعا فرماتے ہوئے ان پاکیزہ ہستیوں کے اسماء گرامی بیان فرماتے جاتے ایک رحمتوں کا سائباں تن جاتا ۔۔محفل کا رنگ ہی بدل جاتا اور گھر والوں کی تسکین و فرحت کا ساماں ہوجاتا تھا ۔

۔ایک صاحب کا بیان ہے کہ میں نے پیر صاحب کو تنہائی میں دعا مانگتے دیکھا کہ تنہائی میں کیسی دعا مانگتے ہیں انہوں نے کہا کہ جیسے محفل میں دعا مانگتے تھے ویسے ہی تنہائی میں دعا مانگتے تھے آپ کے ظاہر اور باطن میں کوئی تضاد نہیں تھا جیسا لوگوں کے سامنے ہوتے تھے ویسے ہی تنہائی میں ہوتے تھے۔

آپ جودوسخا پیکر تھے غریب پرور انسان تھے بے شمار لوگوں کی چپکے سے مدد کر دیتے تھے اور اس کا کبھی بھی اظہار نہیں کرتے تھے دن اور رات کوئی بھی مہمان آتا تو اس کی خوب مہمان نوازی فرماتے کسی کو بھی خالی ہاتھ واپس نہیں جانے دیتے تھے۔ آخرکار علم و حکمت کا یہ نیّر تاباں ،شریعت و طریقت کی کہکشاں پون صدی سے زائد عرصہ اپنی خوشبو ئیں لٹا کر چند روز بستر علالت پہ رہ کر 25 مارچ 2021 جمعرات کو انتقال فرما گئے ۔جمعۃ المبارک کی نماز کے بعد اپ کی نماز جنازہ علاقے کی تاریخی جنازہ تھی، جس میں علاقہ بھر کے علمائے کرام و مشائخ عظام سمیت ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے کثیر تعداد میں شریک ہوئے ۔

پیر سید مدثر حسین شاہ صاحب ترمذی جو آپ کے اکلوتے لخت جگر ہیں۔ آپ کو اپنے والد محترم کا جانشین و سجادہ نشین مقرر کیا گیا ہے ۔پیر سید مدثر حسین شاہ صاحب اپنے والد محترم کی شخصیت کا پرتو اور عکس ہیں ۔انتہائی کریمانہ اخلاق کے مالک اور علم دوست شخصیت ہیں ۔اپنے والد محترم کی اعلیٰ روایات کو جاری رکھے ہوئے ہیں ۔مہمان نوازی ،اصاغر نوازی ،تلطف دوستاں ،تکریم بزرگاں میں اپنی مثال آپ ہیں ۔اللہ تعالی سے دعا ہے کہ پیر سید عمر علی شاہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ کی مرقد پر اپنی کروڑہا رحمتوں کا نزول فرمائے آپ کی اولاد کو اپنے جد کریم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔

23 مارچ بروز بدھ کو آپ کا پہلا عرس مبارک صبح دس بجے تا نماز ظہر سرہالی شریف میں منعقد ہو رہا ہے۔ پڑھنے والوں سے التماس ہے کہ قبلہ پیر سید عمر علی شاہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ کے ایصال ثواب کے لئے ایک دفعہ فاتحہ شریف پڑھ کر ایصال ثواب کر دیں اور قرب و جوار والے احباب اس بابرکت محفل میں شرکت فرمائیں۔

ڈاکٹر محمد رضا المصطفی قادری کڑیانوالہ گجرات