معاملات میں سچائی اکل حلال اورحقوق العباد کی اہمیت وفضیلت

✒ از: محمّد شمیم احمد نوری مصباحی
دارالعلوم انوارِ مصطفیٰ سہلاؤشریف،باڑمیر(راجستھان)

معاملات میں سچائی اور ایمان داری کی تعلیم بھی اسلام کی اصولی اور بنیادی تعلیمات میں سے ہے، قرآن سے اور رسول اللہ ﷺ کی حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اصلی مسلمان وہی ہے جو اپنے معاملات میں اور کاروبارمیں سچا اور ایمان دارہو،عہد کا پکا اور وعدہ کا سچاہو

یعنی دھوکہ فریب سے دور اور امانت میں خیانت نہ کرتا ہو،کسی کاحق نہ مارتا ہو،ناپ تول میں کمی نہ کرتا ہو،جھوٹے مقدمے نہ لڑتا ہو اور نہ جھوٹی گواہی دیتا ہو،سودا اور رشوت جیسی تمام حرام کمائیوں سے بچتاہو اور جس میں یہ برائیاں موجود ہوں

قرآن وحدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ خالص مومن اور اصلی مسلمان نہیں ہے بلکہ ایک طرح کا منافق ہے اور سخت درجہ کا فاسق ہے،اللہ تعالی ہم سب کو ان تمام بری باتوں سے بچائے، اس بارے میں قرآن وحدیث میں جو سخت تاکیدیں آئی ہیں ان میں سے چند ہم یہاں درج کرتے ہیں،قرآن شریف کی مختصر سی آیت ہے

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْکُلُوْٓا اَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ (النساء:۲۹)۔

اے ایمان والو!تم کسی غلط اورناجائز طریقے سے دوسروں کا مال نہ کھاؤ۔

اس آیت نے کمائی کے ان تمام طریقوں کو مسلمانوں کے لیے حرام کردیا ہے جو غلط اور باطل ہیں جیسے دھوکہ، فریب کی تجارت ،امانت میں خیانت ،جوا،سٹہ اورسود،رشوت وغیرہ،پھر دوسری آیتوں میں الگ الگ تفصیل بھی کی گئی ہے،مثلا جودکانداراورسوداگرناپ تول میں دھوکہ بازی اوربے ایمانی کرتے ہیں ان کے متعلق خصوصیت سے ارشاد ہے

وَیْلٌ لِّـلْمُطَفِّفِیْنَالَّذِیْنَ اِذَااکْتَالُوْاعَلَی النَّاسِ یَسْتَوْفُوْنَوَاِذَاکَالُوْہُمْ اَوْوَّزَنُوْہُمْ یُخْسِرُوْنَ اَلَا یَظُنُّ اُولئِکَ اَنَّہُمْ مَّبْعُوْثُوْنَ لِیَوْمٍ عَظِیْمٍ یَّوْمَ یَقُوْمُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ (المطففین:۱۔۶)۔

ان کم دینے والوں کے لیے بڑی تباہی (اور بڑاعذاب ہے) جو دوسرے لوگوں سے جب ناپ کرلیتے ہیں تو پورالیتے ہیں اور جب دوسروں کے لیے ناپتے یا تولتے ہیں تو کم دیتے ہیں کیا ان کو یہ خیال نہیں ہے کہ وہ ایک بہت بڑے دن اٹھائے جائیں گے جس دن کہ سارے لوگ جزا وسزا کے لیے رب العالمین کے حضور میں حاضر ہوں گے۔

دوسروں کے حق اوردوسروں کی امانتیں اداکرنے کے لیے خاص طور سے حکم ملاہے

اِنَّ اللہَ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓى اَھْلِھَا (النساء:۵۸)۔

اللہ تعالی تم کو حکم دیتا ہے کہ جن لوگوں کی جو امانتیں (اورجوحق) تم پر ہوں وہ ان کو ٹھیک ٹھیک اداکرو۔

اور قرآن شریف ہی میں دو جگہ اصلی مسلمانوں کی یہ صفت اورپہچان بتلائی گئی ہے وَالَّذِیْنَ ہُمْ لِاَمٰنٰتِہِمْ وَعَہْدِہِمْ رٰعُوْنَ (المؤمنون:۸)۔

وہ جو امانتوں کے اداکرنے والے اور وعدوں کا پاس رکھنے والے ہیں۔

اورحدیث شریف میں ہے کہ رسول اللہﷺ اپنے اکثر خطبوں اوروعظوں میں فرمایا کرتے تھے کہ یادرکھو،جس میں امانت کا وصف نہیں، اس میں ایمان بھی نہیں اور جس کو اپنے عہداوروعدے کا پاس نہیں، اس کا دین میں کچھ حصہ نہیں (مسند احمد،مسند انس بن مالک رضی اللہ عنہ،)۔

ایک اور حدیث میں ہے حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا منافق کی تین نشانیاں ہیں:جھوٹ بولنا،امانت میں خیانت کرنااوروعدہ پورا نہ کرنا (بخاری،باب علامۃ المنافق،)۔

تجارت اورسوداگری میں دھوکا و فریب کرنے والوں کے متعلق آپ نے ارشاد فرمایا جودھوکا بازی کرے وہ ہم میں سے نہیں (مسند احمد،مسند ابی ھریرہ رضی اللہ عنہ،)۔

جودھوکا بازی کرے وہ ہم میں سے نہیں اور مکر وفریب دوزخ میں لے جانے والی چیز ہے۔ (المعجم الکبیر للطبرانی،عن عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ ،)۔

یہ بات حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت ارشاد فرمائی جب کہ ایک دفعہ مدینے کے بازار میں آپ نے ایک شخص کو دیکھا کہ بیچنے کے لیے اس نے غلے کا ڈھیر لگارکھا ہے لیکن اوپر سوکھا غلہ ڈال رکھا ہے اور اندر کچھ تری ہے اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا کہ:ایسے دھوکا باز ہماری جماعت سے خارج ہیں۔

لہٰذا جودکان دار گاہکوں کو مال کا اچھا نمونہ دکھائیں اور جو عیب ہو اس کو ظاہر نہ کریں توحضور کی اس حدیث کے مطابق وہ سچے مسلمانوں میں سے نہیں ہیں اورخدا نہ کرے وہ دوزخ میں جانے والے ہیں

ایک اور حدیث میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو کوئی ایسی چیز کسی کے ہاتھ بیچے جس میں کوئی عیب اورخرابی ہو اور گاہک پروہ اس کو ظاہر نہ کرے ،تو ایسا آدمی ہمیشہ اللہ کے غضب میں گرفتار رہے گا(اور ایک روایت میں ہے) کہ ہمیشہ اس پر اللہ کے فرشتے لعنت کرتےرہیں گے۔ (ابن ماجہ،باب من باع عیبا فلیبینہ ،)۔

بہرحال اسلامی تعلیم کی رو سے تجارت اور کاروبار میں ہر قسم کی دغابازی اور جعلسازی حرام اور لعنتی کام ہے اور رسول اللہﷺ نے ایسا کرنے والوں سے اپنی بے تعلقی کا اعلان فرمایا ہے اور ان کو اپنی جماعت سے خارج بتلایا ہے۔

اسی طرح سود اور رشوت کا لین دین بھی(اگرچہ دونوں طرف کی رضا مندی سے ہو)قطعا حرام ہے اور ان کے لینے دینے والوں پر حدیثوں میں صاف صاف لعنت آئی ہے،سود کے متعلق تو مشہور حدیث ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ کی لعنت ہوسود کے لینے والے پر اور دینے والے پر اور سودی دستاویز لکھنے والے پر اور اس کے گواہوں پر (نسائی،جز:۵،)۔

اور اسی طرح رشوت کے بارے میں حدیث شریف میں ہے کہ رسول اللہﷺ نے لعنت فرمائی رشوت کے لینے والے پر اور دینے والے پر (ترمذی،باب ماجاء فی الراشی والمرتشی،)۔

ایک حدیث میں یہاں تک ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص نے کسی آدمی کے لیے کسی معاملے میں(جائز) سفارش کی،پھر اس آدمی نے اس سفارش کرنے والے کو کوئی تحفہ دیا اور اس نے یہ تحفہ قبول کرلیا تو وہ سود کی ایک بڑی خراب قسم کے گناہ کا مرتکب ہوا۔ (ابو داؤد،باب فی الھدیۃ لقضاء الحاجۃ،)۔

بہرحال رشوت اورسود کا لین دین اور تجارت میں دھوکا بازی اوربے ایمانی اسلام میں یہ سب یکساں طورپرحرام ہیں اور ان سب سے بڑھ کر حرام یہ ہے کہ جھوٹی مقدمہ بازی کے ذریعہ یا محض جبراً[زبردستی] کسی دوسرے کی کسی چیز پر ناجائز قبضہ کرلیا جاے، ایک حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

جس شخص نے کسی کی زمین کے کچھ بھی حصے پر ناجائز قبضہ کیا تو قیامت کے دن اس زمین کی وجہ سے(اور اس کی سزامیں)زمین کے ساتوں طبق تک دھنسایا جائے گا (بخاری،اثم من ظلم شیئا من الارض،)۔

ایک اور حدیث میں ہے کہ جس شخص نے (حاکم کے سامنے)جھوٹی قسم کھاکر کسی مسلمان کی کسی چیز کوناجائز طریقے سے حاصل کرلیا تو اللہ نے اس کے لیے دوزخ کی آگ واجب کردی اورجنت اس کے لیے حرام کردی ہے ،یہ سن کر کسی شخص نے عرض کیا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگرچہ وہ کوئی معمولی ہی چیز ہو؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ:ہاں اگرچہ وہ پیلو کے درخت کی ایک ٹہنی ہی کیوں نہ ہو۔ (مسلم،باب وعید من قتطع حق مسلم بیمین،)۔

ایک اور حدیث میں ہے کہ رسول اللہﷺ نے ایک مقدمہ باز کو آگاہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ

دیکھو !جو شخص جھوٹی قسم کھاکر کسی دوسرے کا کوئی بھی مال ناجائز طریقے سے حاصل کرے گا وہ قیامت میں اللہ کے سامنے کوڑھی ہوکر پیش ہوگا (ابو داؤد، باب فِيمَنْ حَلَفَ يَمِينًا لِيَقْتَطِعَ بِهَا مَالًا لِأَحَدٍ،)۔

ایک اورحدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس کسی نے کسی ایسی چیز پردعویٰ کیاجو حقیقت میں اس کی نہیں ہے تو وہ ہم میں سے نہیں ہے اور اسے چاہئے کہ دوزخ میں اپنی جگہ بنالے (مسلم،بَاب بَيَانِ حَالِ إِيمَانِ مَنْ رَغِبَ عَنْ أَبِيهِ وَهُوَ يَعْلَم،)۔

اورجھوٹی گواہی کے متعلق ایک حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن صبح کی نماز سے فارغ ہوکر کھڑے ہوگئے اور آپ نے ایک خاص انداز میں تین دفعہ فرمایا کہ جھوٹی گواہی شرک کے برابر کردی گئی ہے۔ (ابو داؤو،باب شہادۃ الزور،)۔

حرام مال کی نجاست اورنحوست: مال حاصل کرنے کے جن ناجائز اورحرام ذریعوں کا اوپر ذکر کیا گیا ہےان کے ذریعے جومال بھی حاصل ہوگا وہ حرام اورناپاک ہوگااورجوشخص اس کو اپنے کھانے پہننے میں استعمال کرے گا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ اس کی نمازیں قبول نہ ہوں گی،دعائیں قبول نہ ہوں گی ،حتی کہ اگر وہ اس سے کوئی نیک کام کرے گا تو وہ بھی اللہ کے یہاں قبول نہ ہوگا اور آخرت میں اللہ کی خاص رحمتوں سے وہ محروم رہے گا

ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جوشخص(کسی ناجائز طریقے سے)کوئی حرام مال حاصل کرے گا اور اس سے صدقہ کرے گا تواس کا یہ صدقہ قبول نہ ہوگا اور اس میں سے جو کچھ (اپنی ضرورتوں اور مصلحتوں میں)خرچ کرےگا اس میں برکت نہ ہوگی اور اگر اس کو ترکہ میں چھوڑ کر مرے گا تو وہ اس کے لیے جہنم کا توشہ ہوگا

یقین کرو کہ اللہ تعالی بدی کو بدی سے نہیں مٹاتا (یعنی حرام مال صدقہ اور گناہوں کی بخشش کا ذریعہ نہیں بن سکتا) بلکہ بدی کونیکی سے مٹاتا ہے کوئی ناپاکی دوسری ناپاکی کو ختم کرکے اس کو پاک نہیں کر سکتی (مسند احمد ،مسند عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ،)۔

ایک دوسری حدیث میں ہے ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالی خودپاک ہے اور وہ پاک اورحلال مال ہی کو قبول کرتا ہے، پھر آخرحدیث میں آپ نے ایک ایسے شخص کا ذکرفرمایا،جودوردرازکا سفرکرکے (کسی خاص متبرک مقام پر دعاکرنے کے لیے)۔

اس حال میں آئے کہ اس کے بال پراگندہ ہوں اور سر سے پاؤں تک وہ غبار میں اٹا ہواہواور آسمان کی طرف دونوں ہاتھ اٹھااٹھاکے وہ خوب الحاح کے ساتھ دعا کرے اور کہے ،اے میرے رب !اے میرے رب! اے میرے پروردگار!لیکن اس کا کھانا پینا مال حرام سے ہو اور اس کا لباس بھی حرام ہو اورحرام مال ہی سے اس کی پرورش ہوئی ہو تو اس حالت میں اس کی یہ دعاکیونکر قبول ہوگی (مسلم،باب قبول الصدقۃ من الکسب الطیب،)۔

مطلب یہ ہے کہ جب کھانا پہننا سب حرام مال سے ہو تو دعاکی قبولیت کا کوئی استحقاق نہیں رہتا ،ایک دوسری حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

اگرکوئی شخص ایک کپڑا دس درہم میں خریدےاور ان دس میں سے ایک درہم حرام ذریعے سے آیا ہواہو تو جب تک وہ کپڑا جسم پر رہےگا اس شخص کی کوئی نماز بھی اللہ کے ہاں قبول نہ ہوگی (مسند احمد،مسند عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ،)۔

ایک اورحدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو جسم حرام مال سے پلاہو،وہ جنت میں نہ جاسکے گا (مسند احمد،مسند جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ،)۔

قارئین کرام ! اگرہمارے دلوں میں ذرہ برابر بھی ایمان ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ان ارشادات کے سننے اور پڑھنےکے بعد ہم کو قطعی طورسے طے کرلینا چاہئے کہ خواہ ہمیں دنیا میں کیسی ہی تنگ دستی اور تکلیف سے گزارا کرنا پڑے ہم کسی ناجائز اور حرام ذریعہ سے کبھی کوئی پیسہ حاصل کرنے کی کوشش نہیں کریں گے اور بس حلال آمدنی ہی پر قناعت کریں گے۔

پاک کمائی اورایمان دارانہ کاروبار: اسلام میں جس طرح کمائی کے ناجائز طریقوں کو حرام اور ان سے حاصل ہونے والے مال کو خبیث اور ناپاک قراردیا گیا ہے اسی طرح حلال طریقوں سے روزی حاصل کرنے اور ایمانداری کے ساتھ تجارت اورکاروبار کرنے کی بڑی فضیلت بتائی گئی ہے، ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا

حلال کمائی کی تلاش بھی دین کے مقررہ فرائض کے بعد ایک فریضہ ہی ہے (بیہقی،الستون من شعب الایمان،)۔

ایک دوسری حدیث میں اپنی محنت سے روزی کمانے کی فضیلت بیان کرتے ہوئے آپ نے ارشاد فرمایا کہ کسی نے اپنی روزی اس سے بہتر طریقے سے حاصل نہیں کی کہ خود اپنے دست وبازو سے اس کے لیے اس نے کام کیا ہو، اور اللہ کے نبی داؤد علیہ السلام کا طریقہ یہی تھا کہ وہ اپنے ہاتھ سے کچھ کام کرکے اپنی روزی حاصل کرتےتھے۔ (بخاری،کسب الرجل وعملہ بیدہ،)۔

ایک اور حدیث میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ سچائی اورایمانداری کے ساتھ کاروبارکرنے والاتاجر(قیامت میں) نبیوں،صدیقوں اورشہیدوں کے ساتھ ہوگا (ترمذی،باب ماجاء فی التجارہ،)۔

اس کو بھی پڑھیں: دین کی دعوت وقت کی اہم ترین ضرورت

معاملات میں نرمی اوررحم دلی

مالی معاملات اورکاروبار میں جس طرح سچائی اور ایمانداری پر اسلام میں بہت زیادہ زوردیا گیا ہے اور اس کو اعلیٰ درجہ کی نیکی اور قرب خداوندی کا اہم ذریعی قراردیاگیا ہے،اسی طرح اس کی بھی بڑی ترغیب دی گئی ہے اور بڑی فضیلت بیان کی گئی ہے کہ معاملہ اورلین دین میں نرمی کا رویہ اختیار کیا جائے اور سخت گیری سے کام نہ لیا جائے، ایک حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا

اللہ کی رحمت ہو اس بندے پر جو خریدوفروخت میں اور دوسروں سے اپنا حق وصول کرنے میں نرم ہو(بخاری،باب السہولۃ والسماحۃ فی الشراء،)۔

ایک دوسری حدیث میں ہے،آپ نے ارشاد فرمایا

جو آدمی اللہ کے کسی غریب اورتنگدست بندے کو(قرض کی ادائیگی میں)مہلت دے دیا(کلی یاجزئی طورپراپنامطالبہ) معاف کردے تو اللہ تعالی اس کو قیامت کے دن کی پریشانیوں سے نجات عطافرمادے گا۔ (مسلم،باب فضل انظار المعسر،)۔

ایک دوسری روایت میں ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کو اپنے سایۂ رحمت میں جگہ دے گا۔ (مسلم،باب حدیث جابر الطویل،)۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ان ارشادات کا تعلق تو تاجروں اور ان دولت مندوں سے ہے جن سے تنگ حال لوگ اپنی ضرورتوں کے لیے قرض لے لیتے ہیں،لیکن جو لوگ کسی سے قرض لیں،خود ان کو رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس کی انتہائی تاکید فرماتے تھے کہ جہاں تک ہوسکے وہ جلد سے جلد قرض ادا کرنے کی کوشش کریں

اور ایسا نہ ہوکہ قرض دار ہونے کی حالت میں دنیا سے چلے جائیں اور اللہ کے کسی بندے کا حق ان کے ذمہ باقی رہ جائے اس بارے میں آپ جتنی سختی فرماتے تھے اس کا اندازہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے ان ارشادات سے ہوسکتا ہے، ایک حدیث میں ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

اگر آدمی راہ خدا میں شہید ہوجائے تو شہادت کے طفیل اس کے سارے گناہ بخش دئے جائیں گے،لیکن اگرکسی کا قرض اس کے ذمہ ہے تو اس سے اس کی گردن شہید ہونےکےبعد بھی نہ چھوٹے گی (مسلم،باب مَنْ قُتِلَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ كُفِّرَتْ خَطَايَاهُ إِلَّا الدَّيْن،)۔

ایک اور حدیث میں ہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اس پروردگار کی قسم ! جس کے قبضۂ قدرت میں محمد ﷺ کی جان ہے؛اگر کوئی شخص راہ خدا میں شہید ہو،پھر زندہ ہو اور پھر شہید ہواورپھرزندہ ہواور پھرشہید ہو اور پھر اس کے ذمے کسی کا قرض باقی ہو،تو(اس قرض کے فیصلے کے بغیر)وہ بھی جنت میں نہیں جاسکے گا۔ (مسند احمد،محمد بن عبداللہ بن جحش)۔

مالی معاملات اورحقوق العباد کی نزاکت کا اندازہ کرنے کے لیے بس یہی دوحدیثیں کافی ہیں،اللہ تعالی توفیق دے کہ ہم بھی ان کی اہمیت اور نزاکت کو سمجھیں اورہمیشہ اس کی کوشش کرتے رہیں کہ کسی بندے کا کوئی حق ہماری گردن پر نہ رہ جائے۔

اللّٰہ تعالیٰ ہم سبھی مسلمانوں کو اپنے آپسی معاملات کو صاف ستھرارکھنے، رزق حلال کھانے اور حقوق اللّٰہ کے ساتھ صحیح معنوں میں حقوق العباد کی ادائیگی کی بھی توفیق مرحمت فرمائے

۔✒ از: محمّد شمیم احمد نوری مصباحی
دارالعلوم انوارِ مصطفیٰ سہلاؤشریف،باڑمیر(راجستھان)۔