عصر حاضر میں خدمت خلق کی ضرورت و اہمیت

ازقلم:مولانامحمدشمیم احمدنوری مصباحی
ناظم تعلیمات:دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف،باڑمیر(راجستھان)

رضائے الٰہی کے حصول کے لیے جائز امور میں مخلوقِ خدا کی خدمت، اعانت اور مدد کرنے کو خدمتِ خلق کہتے ہیں-
خدمت خلق یعنی انسانوں سے پیار ومحبت اور ضرورت مند انسانوں کی مدد کے کاموں کی اہمیت وضروت کو ہردور میں تسلیم کیا گیا اور اس نیک کام کو ہر دین ومذہب میں تحسین کی نظرسے دیکھا جاتا ہےلیکن مذہب اسلام نے تو خدمت خلق پر بہت ہی زور دیا ہے-چنانچہ اسلام دنیا کا وہ واحد مذہب ہے جو سراپا خیر ورحمت،حسن سلوک اور خیر خواہی سے عبارت ہے،اور مخلوق خدا کی خدمت اس کا طرّۂ امتیازہے،یہی وجہ ہے کہ اس دین کو رحمت، اس کے خدا کو رحمٰن ورحیم اور اس دین کے نبی کو رحمة اللعٰلمین کہا گیاہے-
خدمت خلق محبت الٰہی کا تقاضہ ،ایمان کی روح اور دنیا وآخرت کی سرخ روئی کا ذریعہ ہے، صرف مالی اعانت ہی خدمت خلق نہیں ہے بلکہ کسی کی کفالت کرنا ، کسی کو تعلیم دینا ،مفید مشورہ دینا ،کسی کوکوئی ہنر سکھانا، علمی سرپرستی کرنا، تعلیمی ورفاہی ادارہ قائم کرنا، کسی کے دکھ درد میں شریک ہونا اور ان جیسے دوسرے امور خدمت خلق کی مختلف راہیں ہیں۔
اسلام میں احترام انسانیت اور مخلوقِ خدا کے ساتھ ہمدردی وغم خواری کو بہت ہی قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے،چناں چہ قرآن مقدس اور احادیث نبویہ میں جگہ جگہ خدمت انسانیت کو بہترین اخلاق اورعظیم عبادت قراردیا گیا ہےجیسا کہ قرآن مجید میں اللّٰہ وحدہ لاشریک نے اپنے بندوں کو خدمت خلق پر ابھارتے ہوئے ارشاد فرمایا” لیس البرّ ان تولّو وجوھکم قبل المشرق والمغرب ولٰکنّ البرّ من آمن باللّٰه والیوم الآخر والملٰئکة والکتاب والنّبیّین وآتی المال علیٰ حبّه ذوی القربیٰ والیتٰمیٰ والمسکین وابن السبیل والسائلین وفی الرّقاب الخ…(سورۂ بقرہ:۱۷۷)ترجمہ:اس بات میں کوئی کمال اور نیکی نہیں ہے کہ تم اپنارخ مشرق کی جانب کرو یا مغرب کی جانب،لیکن اصلی کمال اور نیکی تو یہ ہے کہ کوئی شخص اللّٰہ پر یقین رکھے اور قیامت کے دن پراور فرشتوں پر اور کتبِ سماویہ پر اور پیغمبروں پر اور وہ شخص مال دیتاہو اللّٰہ کی محبت میں اپنے حاجتمند رشتہ داروں کواور نادار مومنوں کو اور دوسرے غریب محتاجوں کو بھی اور بےخرچ مسافروں کو اور لاچاری میں سوال کرنے والوں کو اور قیدی اور غلاموں کی گردن چھڑانے میں بھی مال خرچ کرتا ہو-

قرآن مقدّس میں ایک مقام پراس تعلق سے یہ ارشاد ہے”وتعاونوا علی البرّ والتّقویٰ ولا تعاونوا علی الاثم والعدوان”(سورۂ مائدہ:۲)۔
ترجمہ: اے ایمان والو!نیکی اور پرہیزگاری [کے کاموں] میں ایک دوسرے سے تعاون و مدد کرو اورگناہ اور برائی [کے کاموں] میں ایک دوسرے کا تعاون نہ کرو-

اسلام اپنے ماننے والوں کو یہ تعلیم دیتا ہے کہ وہ خیر و بھلائی اور اچھے کاموں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون و امداد کریں اور گناہوں اور برائی کے کاموں میں کسی کی مدد نہ کریں بلکہ گناہ اور برائی سے روکیں کہ یہ بھی خدمت خلق کا حصہ ہے-ایک حدیث شریف میں رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم نے ارشاد فرمایا: خیر الناس من ینفع الناس ترجمہ لوگوں میں سب سے اچھا وہ ہے جو لوگوں کو نفع اور فائدہ پہنچائے(ترمذی)۔
ایک اور مقام پر فرمایا: ترجمہ “اگر کوئی شخص راستے سے تکلیف دہ چیز ہٹا دے تو یہ بھی صدقہ ہے”(صحیح مسلم)
قرآن مقدّس اوررسول کریم صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم کی تعلیمات وارشادات نے ہمیں یہ درس دیا کہ ہم میں بہترین اور سب سے اچھا اور عمدہ انسان وہ ہے جو دوسروں کے ساتھ اچھا برتاؤ اور حسن سلوک کرتا ہو-اوروہ اپنی ذات سے لوگوں کو فائدہ پہنچائے، اور کسی کو تکلیف نہ دے، غریبوں، مسکینوں اور عام لوگوں کے دلوں میں خوشیاں بھرے، ان کی زندگی کے لمحات کو رنج و غم سے پاک کرنے کی کوشش کرے، چند لمحوں کے لئے ہی سہی، فرحت و مسرت اور شادمانی فراہم کرکے ان کے درد و الم اور حزن و ملال کو ہلکا کرے،انہیں اگر مدد کی ضرورت ہو تو ان کی مدد کرے اور اگر وہ کچھ نہ کرسکتا ہو تو کم از کم ان کے ساتھ حسن اخلاق سے پیش آکر،ان کی دلجوئی اور میٹھی بات کرکے ان کے تفکرات کو دور کرے

دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو

ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کرّوبیاں

الغرض قرآن کی آیات اور احادیث نبویہ کی روشنی میں یہ بات بالکل ظاہر و باہر ہو جاتی ہے کہ اسلام ہمیں احترام انسانیت اور خلق خدا کے ساتھ ہمدردی اور تعاون کی تعلیم دیتا ہے- بیواؤں، مزدوروں، یتیموں،غریبوں، محتاجوں اور بے کسوں کے ساتھ غمخواری اور اظہار ہمدردی کی ترغیب دیتا ہےخصوصاً آج کے اس ماحول میں جب کہ عالمی وبا سے کئی زندگیاں اجیرن بن چکی ہیں، مزدور، کسان اور بہت سے لوگوں کی زندگی بری طرح متاثر ہو چکی ہے ہمارے ہہت سےعلما و ٹیچرس بھی فاقہ کشی کی نوبت تک پہنچ چکے ہیں-لہٰذا ایسے ماحول میں ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم جہاں کہیں بھی ہوں اسلامی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے محض انسانیت کی بنیاد پر ذات پات، رنگ و نسل کا لحاظ کئے بغیر پریشان حال لوگوں کا تعاون جس طرح سے بھی ہوسکے کرکے آپسی ہمدردی، مساوات اور رواداری کا عملی نمونہ پیش کریں-

اس ضمن میں قابل مبارک باد ہیں ہمارے علاقے کی نہایت متحرّک وفعّال رفاہی تنظیم “تحریک پیغام انسانیت” کے ذمہ داران جو مسلسل بلاتفریق مذہب وملّت پریشان حال انسانیت کی اپنے طور پر ہر ممکن تعاون و خدمت میں لگے ہوئے ہیں-

اللّٰہ تبارک وتعالیٰ اس تنظیم کو مزید مستحکم اور پائیدار بنائے،تاکہ اس تنظیم کے ذریعہ زیادہ سے زیادہ خدمت خلق ہو سکے

اور ہم سبھی لوگوں کو بھی چاہییے کہ ہم انفرادی یااجتماعی طور پر جس طرح بھی ممکن ہو مفلوک الحال اور پریشاں حال مخلوق خدا کی حتی الامکان خدمت اور تعاون کریں، کیوں کہ مخلوقِ خدا کو تو حدیث شریف میں اللّٰہ کا کنبہ کہاگیا ہے،اوران کے ساتھ بھلائی وہمدردی کو محبّت الٰہی کے حصول کاذریعہ بتایا گیا ہےجیسا کہ ارشاد نبوی ہے” الخلق عیال اللّٰه فاحبّ الخلق الی اللّٰه من احسن الیٰ عیاله”(مشکوٰة)۔
ترجمہ : ساری مخلوق اللّٰہ تعالیٰ کاکنبہ ہے اور مخلوق میں سب سے زیادہ محبوب وپسندیدہ اللّٰہ کے نزدیک وہ شخص ہے جو اللّٰہ کے عیال کے ساتھ بھلائی کے ساتھ پیش آئے- انسان ایک سماجی مخلوق ہے اس لئے سماج سے الگ ہٹ کرزندگی نہیں گذارسکتا،اس کے تمام تر مشکلات کا حل سماج میں موجود ہے،مال ودولت کی وسعتوں اور بے پناہ صلاحیتوں کے باوجود انسان ایک دوسرے کا محتاج ہےاس لیے ایک دوسرے کی محتاجی کو دور کرنے کے لئے آپسی تعاون ،ہمدردی ،خیر خواہی اور محبت کا جذبہ سماجی ضرورت بھی ہے،مذہب اسلام چونکہ ایک صالح معاشرہ اور پرامن سماج کی تشکیل کا علم بردار ہےاس لیے مذہب اسلام نے ان افراد کی حوصلہ افزائی کی جو خدمت خلق کے جذبہ سے سرشار ہوکرسماج کے دوسرے ضرورت مندوں اور محتاجوں کا درد اپنے دلوں میں سمیٹے ،تنگ دستوں اور تہی دستوں کے مسائل کو حل کرنے کی فکر کرے،اپنے آرام کو قربان کرکے دوسروں کی راحت رسانی میں اپنا وقت صرف کرے۔
کمال یہ ہے کہ اسلام نے خدمت خلق کے دائرۂ کارکو صرف مسلمانوں تک محدود رکھنے کا حکم نہیں دیا بلکہ غیر مسلموں کے ساتھ بھی انسانی ہمدردی اور حسن سلوک کو ضروری قرار دیا، روایتوں کے مطالعہ سے پتہ چلتاہے کہ اللّٰہ کے نبی صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم نےجہاں مسلمانوں کو ایک دوسرے کا بھائی قرار دیا وہیں تمام مخلوق کو اللہ کا کنبہ بھی قرار دیا
اس سے انسانیت کی تعمیر کے لئے آپسی ہمدردی ،باہمی تعاون اور بھائی چارے کی وسیع ترین بنیادیں فراہم ہوئی ہیں،پڑوسی کے حقوق کی بات ہو یا مریضوں کی تیمارداری کا مسئلہ ،غرباء کی امداد کی بات ہو یا مسافروں کے حقوق کا معاملہ ،اسلام نے رنگ ونسل اور مذہب وملت کی تفریق کے بغیر سب کے ساتھ یکساں سلوک کو ضروری قرار دیا-
حیرت ہے ان لوگوں پر جنہوں نے مذہب اسلام کی من گھڑت تصویر پیش کرتے ہوئے یہاں تک کہاکہ اسلام میں خدمت خلق کا کوئی جامع تصور موجود نہیں ہے، جب کہ سچائی اورحقیقت تو یہ ہے کہ اسلام نے مسلمانوں کو اس بات کا پابند بنایا ہے کہ وہ آپس میں [بلا تفریق مذہب وملّت]ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی کریں، بلکہ اسلام نے تو جانوروں کے ساتھ بھی حسن معاملہ کا حکم دیا ہے،اس پر بہت سی روایات وشواہد موجودہیں- مذہب اسلام نے بنیادی عقائد کے بعد خدمت خلق کو سب سے زیادہ اہمیت دی ہے، قرآن مجید کے مطابق تخلیق انسانی کا مقصد بلاشبہ عبادت ہے،لیکن عبادت سے مراد محض نماز ،روزہ ،حج وزکوۃ نہیں ہے بلکہ عبادت کا لفظ عام ہے جو حقوق اللّٰہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کو بھی شامل ہے-
علامہ رازی نے عبادت کی تفسیر کرتے ہوئے ایک جگہ لکھاہے کہ پوری عبادت کا خلاصہ صرف دوچیزیں ہیں ایک امر الٰہی کی تعظیم اور دوسرے خلق خداپر شفقت،علامہ رازی کی یہ بات دل کو چھو لینے والی اور بہت صحیح ہے،علم حدیث سے واقفیت رکھنے والے علما جانتے ہیں کہ فرامین نبوی کے ایک بڑے حصہ کا تعلق حقوق العباد اور خدمت خلق سے ہے،طول کلامی سے اجتناب ان روایتوں کے تذکرہ کی اجازت نہیں دیتا ورنہ بہت ساری روایتیں ذکر کی جاسکتی ہیں، تاہم چند مشہوراحادیث کا تذکرہ مناسب معلوم ہوتاہے-
(۱)رحم کرنےوالوں پر رحمٰن رحم فرماتاہے تم زمین والوں پر رحم کرو اللّٰہ تعالیٰ تم پر رحم فرمائےگا-
(۲)تم میں سب سے بہتر شخص وہ ہے جس سے لوگوں کو نفع پہونچے-
(۳)قوم کا سردار قوم کا خادم ہوتاہے
(۴)اللّٰہ تعالیٰ کے کچھ نیک بندے ایسے ہیں جن کو اس نے اپنی خاص نعمتوں سے نوازا ہے تاکہ وہ اللّٰہ کے بندوں کو اپنے مال سے نفع پہنچائیں اور جب تک وہ اللّٰہ کے بندوں کو نفع پہنچاتے رہیں گے اللّٰہ تعالیٰ بھی انہیں مزید نعمتوں سے نوازتارہےگا اور جب وہ خدا کے بندوں کو محروم کردیں گے تو اللّٰہ بھی ان سے اپنی نعمتیں ختم فر دیتاہے اور ان کی جگہ دوسرے بندوں کو عطا فرما دیتا ہے-
(۵)اللّٰہ تعالیٰ اس شخص پر رحم نہیں فرماتا جو انسانوں پررحم نہیں کرتا-
(۶)اللّٰہ تعالیٰ اس وقت تک بندے کی مدد کرتارہتاہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں لگارہتاہے-
(۷)جو کسی مصیبت زدہ کی تعزیت کرے[اسے تسلی دے] اسے اتنا ہی ثواب ملے گا جتنا مصیبت زدہ کو-

مذکورہ روایتوں سے جہاں خدمت خلق کی اہمیت اجاگر ہوتی ہے وہیں یہ بات بھی صاف ہوجاتی ہے کہ مذہب اسلام خدمت خلق کے دائرہ کار کو کسی ایک فرد یا چند جماعتوں کے بجائے تمام افراد امت پر تقسیم کردیا ہے، غریب ہو ،امیر ہو یا بادشاہِ وقت، ہر شخص اپنی استطاعت کے مطابق خدمت خلق کی انجام دہی کا ذمہ دار ہے-
یہاں یہ بات قابل توجہ ہے کہ اللّٰہ کے نبی صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم نے خدمت خلق کی محض زبانی تعلیم نہیں دی بلکہ آپ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم کی عملی زندگی خدمت خلق سے لبریز ہے-
سیرت طیبہ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ بعثت سے قبل سے آپ خدمت خلق میں مشہور تھے، بعثت کے بعد خدمت خلق کے جذبہ میں مزید اضافہ ہوا، مسکینوں کی دادرسی ،مفلوک الحال پر رحم وکرم ،محتاجوں ،بے کسوں اورکمزورں کی مدد آپ کے وہ نمایاں اوصاف تھے جس نے آپ کو خدا اور خلقِ خدا سے جوڑ رکھا تھا،
حلف الفضول میں شرکت ،غیر مسلم بڑھیا کی گٹھری اٹھاکر چلنا ،فتح مکہ کے موقع سے عام معافی کا اعلان اور مدینہ منورہ کی باندیوں کا آپ صلّی اللّہ علیہ وسلّم سے کام کروالینا اس کی روشن مثالیں ہیں،آپ صلّی اللّہ علیہ وسلّم کے اصحاب [رضوان اللّٰہ علیہھم اجمعین] بھی خدمت خلق کے جذبہ سے سرشار تھے-
حضرت ابوبکر صدّیق کا تلاش کرکے غلاموں کو آزاد کرانا ،حضرت عمرفاروق اعظم کا راتوں کو لباس بدل کر خلق خدا کی دادرسی کے لئے نکلنا ،حضرت عثمان غنی کا پانی فروخت کرنے والے یہودی سے کنواں خرید کر مسلم وغیر مسلم سب کے لیے وقف کردینا تاریخ کے مشہور واقعات میں سے ہیں،انصار کا مہاجرین کے لیے بے مثال تعاون بھی اسی زمرہ میں آتاہے، خدمت خلق کا یہ جذبہ مذکورہ چند صحابۂ کرام میں ہی منحصر نہیں تھا بلکہ آپ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم کے تمام اصحاب کا یہی حال تھا کہ انہوں نے رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلّم کی اتباع کرتے ہوئے نظام مصطفیٰ کی عملی تصویر دنیا کے سامنے پیش کیں، اپنے کردار سے سماجی فلاح وبہبود اور خدمت خلق کا وہ شاندار نقشہ تاریخ کے اوراق میں محفوظ کردیا جس کی نظیر دنیا کا کوئی نظام حیات پیش نہیں کرسکتاـ
یہ تو ملت اسلامیہ کی بدقسمتی ہے کہ اس نے نماز ،روزہ ،زکوۃ اور حج کو عبادات کا حدود اربعہ سمجھ رکھا ہے اور معاشرت ،معاملات اور اخلاقیات کو مذہب سے باہر کردیا ہے، حالانکہ یہ بھی دین کے اٹوٹ حصے ہیں۔
فرقہ پرستی اور اخلاقی بحران کے اس دور میں اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ سماج کے بااثر افراد ،تنظیمیں اور ادارے خدمت خلق کے میدان میں آگے آئیں،دنیا کو اپنے عمل سے انسانیت کا بھولا ہوا سبق یاد دلائیں ،نصاب تعلیم میں اخلاقیات کو بنیادی اہمیت دی جائے، تاکہ نئی نسلوں میں بھی خدمت خلق کا جذبہ پروان چڑھے، خدمت خلق صرف دلوں کے فتح کرنے کا ذریعہ ہی نہیں بلکہ اسلام کی اشاعت کا موثر ہتھیار بھی ہے۔

کرومہربانی تم اہل زمیں پر

خدامہرباں ہوگا عرش بریں پر

خلق خدا کی خدمت سے انسان نہ صرف یہ کی لوگوں کے دلوں میں محترم ہو جاتا ہے بلکہ اللّٰہ تعالیٰ کے یہاں بھی بڑی عزت و احترام پاتا ہے-ایساشخص اللّٰہ وحدہ لاشریک کی رضا اور قرب کا حق دار بن جاتا ہے
اور مخلوقِ خدا کی خدمت کرنے والا حضرت شیخ سعدی شیرازی کے اس مصرع کا مصداق بن جاتا ہے “ہر کہ خدمت کرد او مخدوم شد” یعنی جو شخص دوسروں کی خدمت کرتا ہے [ایک وقت ایسا آتا ہے کہ] لوگ اس کی خدمت کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں،یعنی وہ خادم سے مخدوم بن جاتا ہے-
حاصل کلام یہ ہے کہ خد متِ خلق وقت کی ایک بہت بڑی ضرورت اور بہت بڑی عبادت بھی ہے، کسی انسان کے دکھ دردکو بانٹنا جہاں اس کےساتھ ایک اخلاقی ذمہ داری وہمدردی ہے وہیں حصولِ جنت کا ذریعہ بھی ہے، کسی زخمی دل پر محبت و شفقت کا مرہم رکھنا اللّٰہ کی رضا و خوش نودی کا ذریعہ ہے،کسی مقروض کے ساتھ تعاون کرنا اللّٰہ کی رحمتوں اور برکتوں کو حاصل کرنے کا ایک بہت بڑا سبب ہے، کسی بیمار کی عیادت کرنا مسلمان کا حق بھی ہے اور سنت رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلّم بھی ہے، کسی بھوکے کو کھانا کھلانا نیکی اور ایمان کی علامت ہے،کیوں کہ دوسروں کے کام آنا ہی اصل زندگی ہے جیسا کہ کسی دانشور کا کا یہ فکرانگیزقول بہت مشہور ہے کہ “اپنے لیے تو سب جیتے ہیں صحیح معنوں میں انسان تو وہ ہے جو اللّٰہ کے بندوں اور اپنے بھائیوں کے لیے جیتا ہو” شاعر مشرق ڈاکٹر اقبال کے الفاظ میں

ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھے

آتے ہیں جو کام دوسروں کے

ایک سچے مسلمان بلکہ ایک اچھے انسان کی یہ نشانی ہے کہ وہ اپنی زندگی میں ایسا کام کرے جس سے عام لوگوں کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچے مثلا کوئی رفاہی ادارہ قائم کردے، اسپتال وشفاء خانہ بنوا دے، مدرسہ، اسکول و کالجز تعمیر کرا دے اور راستے میں یا کسی ایسی جگہ جہاں سے لوگ سیرابی حاصل کرسکیں،کنواں و تالاب کھودوادے یا نل وپیاؤ بنوا دےـ
یہ سب ایسے کام ہیں کہ جن سے مخلوق خدا فیض یاب ہوتی ہے اور ان اداروں کے قائم کرنے والوں کے حق میں دعائیں کرتی رہتی ہے اور یہ ایسے ادارے اورچیزیں ہیں جو صدقۂ جاریہ میں شمار ہوتے ہیں- یعنی ان اداروں سے جو لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں وہ قائم کرنے والوں کے حق میں دعائیں کرتے رہتے ہیں اور اس کا اجر و ثواب مرنے کے بعد بھی اس شخص کو ملتا ہے اور اس کے نامۂ اعمال میں لکھا جاتا ہے-
اس اعتبار سے یقیناً قابل مبارکباد ہیں وہ سبھی حضرات جو خالصاً لوجہ اللّٰہ اس طرح کے ادارے یا تنظیمیں قائم کرکے زمینی سطح پر مخلوقِ خداکی خدمت کرتے ہیں،اس موقع پر ہم مباک باد پیش کرتے ہیں ۔
مکارم الاخلاق حضرت علّامہ ومولانا نظام احمد خان مصباحی کو جنہوں نے اپنے رفقا کے معاونت ومشاورت سے اس طرح کےایک رفاہی ادارہ “تنظیم تحریک پیغام انسانیت” کی داغ بیل ڈالی، اور الحمدللّٰہ اس تنظیم کے ذریعہ [اہل خیر سے تعاون حاصل کرکے] ضرورت مندوں کی خوب خوب خدمت کررہے ہیں-
اللّٰہ تبارک وتعالیٰ اس طرح کی سبھی تحریکوں وتنظیموں [بالخصوص تحریک پیغام انسانیت] کی غیب سے مدد فرمائے-اور اہل ثروت واہل خیر حضرات کو اس طرح کی تنظیموں کی معاونت کی جانب راغب فرمادے آمین بجاہ سیّدالمرسلین[صلّی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم]۔