ازقلم:شمار علی قادری انواری

خادم:- مدرسہ جامعہ مجددیہ فضل معصومیہ جانپالیہ، تحصیل:سیڑوا ضلع:باڑمیر (راجستھان)

یہ حقیقت ہے کہ اللہ ربّ العزت ہر دور میں دین اسلام کی تجدید اور اس میں آنے والی خرافات و برائیوں کے خاتمے کے لئے باعظمت شخصیات کو پیدا فرماتا ہے جو منشأ خداوندی و مرضیٔ رسالت پناہی کے مطابق دین متین کی حفاظت کرتی ہیں اور اس میں در آئی ہوئی خرابیوں کا ازالہ کرتے ہوئے اصلاح امت کا فریضہ انجام دیتی ہیں انہیں شخصیات میں حضور شمس العالم سرور سرہندیان خواجہ پیر عبد الرحیم المعروف حضرت آغا صاحب فاروقی سرہندی علیہ الرحمہ کی بھی نمایاں خدمات ہیں
آپ کی ولادت یکم شوال 1222 ھ مطابق 07 فروری 1808 عیسوی بروز اتوار [عیدالفطر کے دن] بوقت نماز فجر درہ فرخ شاہ کابل (افغانستان) میں ہوئی-
حضور قطب الرحمن حضرت آغا صاحب قدس سرہ شروع میں اپنے مرشد و والد ہادی الخلائق قطب الاقطاب شاہ ضیاء الحق شہید رحمۃ اللہ علیہ کی زندگی مبارک میں کابل (افغانستان) میں ان کی خدمت میں رہے، پھر اپنے والد و مرشد کی اجازت سے صوبہ سندھ کے حیدرآباد میں تقریباً 16 سال اقامت گزیں رہے، سندھ کے اس وقت کےحکمران میران تالپر کے اختلافات کے پیش نظر تین سال کے لئے حیدرآباد سے بمبئی چلے گئے ۔ بعد ازاں واپسی میں سندھ سے ہوتے ہوئے مٹیاری شریف میں اپنی پھوپھی حضرت بی بی صاحبہ رحمة اللہ علیہا کے مزار پر حاضری دے کر واپس قندھار شہر کے توفخانہ محلہ کوچۂ بیابان سلطان احمد شاہ ابدالی کی حویلی جو کہ سراۓ احمد شاہ کے نام سے مشہور تھی ان کے خاندان سے خرید کر سکونت اختیار فرمائی،
اور یوں تقریباً چھتیس (36) سال قندھار میں سکونت پذیر رہے اور بالآخر آپ کی پھوپھی صاحبہ سیدہ کاملہ بی بی امتہ اللہ رحمۃ اللہ علیہا کی مٹیاری شریف میں اکیلی مزار ہونے کے باعث اور سرہندی جماعت کے خلفاء کی شدید خواہش پر آپ [قطب الرحمن علیہ الرحمہ] نے 1296 ہجری میں مٹیاری شریف میں سکونت اختیار فرمائی ۔ روایت ہے کہ بی بی صاحبہ رحمة اللہ علیہا نے کئی بار آپ کو خواب میں آکر مٹیاری شریف میں سکونت اختیار کرنے کو فرمایاتھا۔
آپ کا وصال اتوار 24 جمادی الاولیٰ 1314 ہجری مطابق یکم نومبر 1895 عیسوی بروز اتوار مٹیاری شریف سندھ میں ہوا-
ایک بار آپ نے کسی معاملے کو لےکر فرمایا۔
میں پہاڑ کے سرہانے کھڑا غروب ہونے والا وہ سورج ہوں کہ جب غروب ہوں گا تو معلوم ہو جائے گا غروب ہونے والا سورج اچانک ڈوب جاتا ہے اور فوراً اندھیرا چھا جاتا ہے۔
آپ تقوی و پرہیزگاری کے پہاڑ تھے ساری زندگی عبادت وریاضت میں گزاری۔
مرشد مقدس و مہتدی صاحب ھدی، قطب الرحمن سرور سرہندیان خواجہ حضرت آغا صاحب قدس سرہ العزیز نے وصال کے دن اہل خانہ سے پوچھا کہ آج ہمارے گھر میں کوئی چیز ہے؟ جواب ملا چیزے نیست (کوئی چیز نہیں ہے) تب فرمایا کہ شکر الحمد للہ؛ اللہ کا شکر ہے کہ اپنے بزرگوں کی پیروی پہ اس دنیا سے جا رہا ہوں۔
مروی ہے کہ آپ تہجد کی نماز سے فارغ ہوکر اہل پردہ سے معلوم کرتے کہ آج لنگر خانہ میں اشیاء خورد و نوش ہیں اگر ہیں تو ٹھیک ہے ورنہ فرماتے۔ ہم نے روزہ کی نیت کر لی ہے بس پورا کنبہ و اہل خانہ اندر باہر مریدین و متوسلین بھی روزہ کی نیت کر لیتے اور شام ہوتے ہی اللہ تعالیٰ کی مہربانی سے سارے انتظامات ہو جاتے اور سب کچھ حاضر ہوتا۔
اللہ تعالیٰ ان کی تربت انور پر رحمت وغفران کا نزول فرمائے اور ان کے صدقے ہماری مغفرت فرمائے- آمین