*سلطان الہند حضرت خواجہ غریب نواز کے کچھ اہم ملفوظات وارشادات*
___________
از:(مولانا)محمد شمیم احمد نوری مصباحی
ناظم تعلیمات: دارالعلوم انوار مصطفیٰ سہلاؤ شریف،
باڑمیر (راجستھان)

Email:mdshamimahmadnoori@gmail.com
___________
بزرگان دین کے ملفوظات، ارشادات وفرمودات ہمارے لئے ایک ایسی وراثت ہیں جن میں ہماری تہذیب و ثقافت علمی و دینی تعلیمات اور ہماری تاریخ پوشیدہ ہے_ مشائخ شریعت و طریقت اور صوفیائے کرام اپنے مریدین و متوسلین کی اصلاح و تربیت کے لئے جو دینی، اخلاقی اور اصلاحی و روحانی باتیں بتاتے تھے انہیں ملفوظات کہا جاتا ہے_ اولیاءاللّٰہ کے دلنشین ملفوظات وفرمودات اصلاح حال کا سب سے موثر ذریعہ ثابت ہوئے ہیں- بزرگوں کے اقوال و ارشادات بکھرے ہوئےشہ پاروں کی مانند ہوتے ہیں-ان میں دینی و فکری باتیں، ان کی تعلیمات و نظریات، پندونصائح اور علمی جواہر پارے ہوتے ہیں-یقیناً ان کے اقوال و فرمودات دل و دماغ پر گہرے اور دور رس اثرات مرتب کرتے ہیں، ان سے ایمان میں تازگی اور روح میں حرارت پیدا ہوتی ہے، عبادتوں میں دل جمعی اور سکون پیدا ہوتا ہے، دنیا کی ناپائیداری اور بے ثباتی کا احساس، موت کا خوف اور آخرت کی فکر دامن گیر ہوتی ہے،اور ساتھ ہی ساتھ بزرگوں کے ملفوظات میں صبرورضا، خشیت الٰہی، ذکر و فکر اور نبی کونین صلّی اللّہ تعالیٰ علیہ وسلّم سے والہانہ عشق و محبت کا پیغام بھی ہوتا ہے- حضرت شیخ فرید الدین عطار کے بقول “قرآن و حدیث کے بعد کوئی کلام مشائخِ طریقت کے کلام سے بلندوبالا نہیں، کیونکہ ان کا کلام عمل وحال کا نتیجہ ہوتا ہے،محض یاداشت اور قیل وقال کا ثمرہ نہیں ہوتا”- یہی وجہ ہے کہ انسانی قلوب و اذہان کو متاثر کرنے میں لمبی چوڑی تقریریں اس قدر اثر انداز نہیں ہوتیں جس قدر کسی ولی کامل کا ایک مختصر اور سادہ جملہ اثر انگیز ہوتا ہے _ بزرگانِ دین و صوفیائے کرام کے ارشادات سیدھے دل پر اثر انداز ہوتے ہیں اور لمحوں میں دل کی دنیا بدل جاتی ہے- بزرگانِ دین کے ملفوظات وارشادات کی یہ اثر انگیزی صرف ان کی مجالسِ ارشاد وہدایت کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ ان ملفوظات کے اثرات ان کی ظاہری زندگی کے بعد بھی برقرار رہتے ہیں، آج بھی ان کے ملفوظات بیمار قلوب و اذہان کے لیے تریاق کی حیثیت رکھتے ہیں_ بزرگوں کے ملفوظات کی اثرپذیری نے نے ہزاروں گم گشتگانِ راہِ منزل کو منزل آشنا کیا اور ان کے ایک ایک انمول فقرے اور جملے نے نہ جانے کتنے انسانوں کی قسمت بدل ڈالیں، حاصل کلام یہ ہے کہ بزرگان دین کے اقوال و ارشادات اور مکتوبات و ملفوظات کو ہر دور میں امتیازی حیثیت حاصل رہی ہے- لوگ آج بھی صوفیائے کرام کی تصانیف، ان کے ملفوظات اور اقوال و ارشادات کا مطالعہ اور اس پر عمل کرکے اصلاح و ہدایت،تزکیۂ نفس اور تطہیرِ باطن کا سامان مہیاکر کے اپنی دنیا و آخرت کو سجا اور سنوار سکتے ہیں-
یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ عالَمِ اسلام کی تقریباً نصف آبادی برصغیر کے تین بڑے ممالک ہندوپاک اور بنگلہ دیش میں آباد ہے، ان تین ممالک کے ہزاروں شہروں اور لاکھوں دیہاتوں میں آج جو اسلام کا غلغلہ بلند ہے وہ بلاشبہ مرہونِ منّت ہے ان اولیائے کاملین کا جو اسلام کی تبلیغ و اشاعت کے لئے برصغیر کے کونے کونے میں پہنچے اور آج وہیں کے خاک میں محو خواب ہیں- ان مبلغینِ کرام میں ایک بہت بڑا حصہ بزرگانِ چشت اہل بہشت کا ہے جن کے سرخیل و سرتاج سلطان الہند، خواجۂ خواجگان حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری علیہ الرحمة و الّرضوان ہیں، جو اسی مقصد کے لئے ہندوستان آئے اور اپنے مقصد میں بڑی حد تک کامیاب بھی ہوئے،اگر اس سلسلے کی خدمات کا آغاز حضرت خواجہ عثمان ہارونی علیہ الرحمہ سے ہوتا ہے تو اسے بامِ عروج پر پہنچانے والے حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری علیہ الرحمہ ہیں-
سلطان الہند حضرت خواجہ غریب نواز کا مشن اور مقصد ہی اسلام کی تبلیغ و اشاعت اور دین حق کی روشنی پھیلانا اور گمگشتہ راہِ ہدایت افراد کو صراط مستقیم کی دعوت دینا نیز اسلام کے اصولوں سے لوگوں کو متعارف کرانا اور طالبانِ معرفت کو سلوک و تصوف کے منازل طے کراکر دلوں کے زنگ دور کرنا اور تزکیۂ نفس کی تلقین فرمانا تھا، چنانچہ آپ کی مجالس میں رشدوہدایت، تزکیہ و طہارت اور معرفت و سلوک کی باتیں ہوتی تھیں- آپ کے بعض مجالس کے ارشادات وفرمودات و اقوال کو آپ کے خلیفہ حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی علیہ الرّحمہ نے “دلیل العارفین” کے نام سے قلمبند کر لیاتھا- اور ویسے بھی خانوادۂ چشت کے بڑے بزرگوں کی یہ ایک اہم خصوصیت رہی ہے کہ ان میں سے اکثر بلکہ سبھی بزرگوں نے اپنے مرشدانِ گرامی کے کچھ نہ کچھ ملفوظات کو ضرور قلم بند کیا ہے- چنانچہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی نے اپنے پیر ومرشد حضرت خواجہ عثمان ہارونی کے ملفوظات کو “انیس الارواح” کے نام سے مرتب کیا- خود حضرت خواجہ غریب نواز کے ملفوظات کو حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی نے “دلیل العارفین” کے نام سے مرتب و شائع کیا- حضرت بختیار کاکی کے ملفوظات حضرت بابا فرید الدین گنج شکر نے “فوائد السالکین” کےنام سے ترتیب دیئے، حضرت بابا فرید الدین کے ملفوظات “راحت القلوب”کے نام سے محبوب الٰہی حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء کے قلم گہر بار کا نتیجہ ہیں، نیز حضرت خواجہ بدر اسحاق نے بھی ان کے ملفوظات کو “اسرار الاولیاء” کے نام سے مرتب کیا ہے- اسی طرح حضرت محبوب الٰہی کے ملفوظات کو حضرت امیر خسرو نے “افضل الفوائد” اور راحت المحبّین” کے نام سے مرتب کیا، نیز حضرت خواجہ امیر حسن سنجری نے پانچ جلدوں میں “فوائدالفواد” کے نام سے پیش کیا، خواجہ نصیر الدین چراغ دہلوی کے ارشادات وفرمودات مختصراً حضرت محبّ اللّٰہ “مصباح العاشقین” کے نام سے مرتب کیے ہیں- اس طرح اس سلسلۃ الذہب کے سبھی اہم بزرگوں کے ارشادات وفرمودات تحریری شکل میں موجود ہیں- اور ان سب کو مجموعی حیثیت سے “ہشت بہشت” کے نام سے بھی یکجا کر دیا گیا ہے-
اب ہم سرِدست حضرت خواجہ غریب نواز کے کچھ اہم ملفوظات، اقوال و فرمودات اور تعلیمات و ارشادات بحوالہ دلیل العارفین درج کر رہے ہیں- جو یقیناً علوم و معارف کے ایسے جواہر پارے ہیں جن سے زندگی کے ہر گوشہ میں روشنی ملتی ہے- عقائد و اعمال ہوں یا فضائل و مسائل، آداب والدین ہوں یا آداب پیری مریدی ان میں سب کا واضح بیان ملتا ہے-
★نماز بندوں کی امانت ہے، پس بندوں کو چاہیے کہ اس کا حق ادا کریں کہ اس میں کوئی خیانت پیدا نہ ہو- نماز ایک راز ہے جو بندہ اپنے پروردگار سے کہتا ہے-( دلیل العارفین ص/۸)
★ قیامت کے روز سب سے پہلے نماز کا حساب انبیاء اولیاء اور ہر مسلمان سے ہوگا، جو اس حساب سے عہدہ برآ نہیں ہو سکے گا وہ عذاب دوزخ کا شکار ہوگا-(ایضاً ص/۸)
★نماز دین کارکن ہے اور رکن ستون ہوتا ہے پس جب ستون قائم ہوگیا تو مکان بھی قائم ہوگیا-(ایضاً ص/۹)
★جس نے کچھ پایا خدمت سے پایا، پس لازم ہے کہ پیر کے فرمان سے ذرہ برابر تجاوز نہ کرے، جو کچھ اس سے نماز، تسبیح، اوراد وغیرہ کی بابت فرمائے، گوش ہوش سے سنے اور اسے بجا لائے، تاکہ کسی مقام پر پہنچ سکے،کیونکہ پیر مرید کا سنوار نے والا ہے، پیر جو کچھ فرمائے گا وہ مریدکے کمال کے لیے ہی فرمائےگا- (ایضاً ص/۲)
قبرستان میں عمداً کھانا کھانایا پانی پینا گناہ کبیرہ ہے ،جو عمداً کھائے وہ ملعون اور منافق ہے،کیوں کہ گورستان مقام عبرت ہے نہ کہ جائے حرص وہویٰ(ایضاً ص/۱۶)
★اس سے بڑھ کر کوئی گناہِ کبیرہ نہیں کہ مسلمان بھائی کو بلاوجہ ستایا جائے،اس سے خداورسول دونوں ناراض ہوتے ہیں-(ایضاً ص/۱۷)
★پانچ چیزوں کو دیکھنا عبادت ہے: (۱) اپنے والدین کے چہرے کو دیکھنا، حدیث میں ہے جو فرزند اپنے والدین کا چہرہ دیکھتا ہے اس کے نامۂ اعمال میں حج کا ثواب لکھا جاتا ہے-(۲) کلام مجید کا دیکھنا-(۳) کسی عالم بزرگ کا چہرہ عزت و احترام سے دیکھنا-(۴)خانۂ کعبہ کے دروازے کی زیارت اور کعبہ شریف دیکھنا-(۵) اپنے پیر و مرشد کے چہرے کی طرف دیکھنا اور خدمت میں مصروف رہنا(ایضاً ص/۲۰-۲۲)
★کون سی چیز ہے جو اللّٰہ تعالیٰ کی قدرت میں نہیں ہے مرد کو چاہیے کہ احکام الٰہی بجالانے میں کمی نہ کرے پھر جو کچھ چاہے گا مل جائے گا-(ایضاً ص/۲۴)
★ایک بار خواجہ بایزید بسطامی رحمة اللّٰہ علیہ نے مناجات کے وقت یہ الفاظ کہے کیف السلوک علیک؟ آواز آئی ائے بایزید: طلّق نفسک ثلٰثاً وقل ھواللّه احد، یعنی پہلے اپنی ذات کو تین طلاق دے پھر ہماری بات کر-(ایضاً ص/۳۶،مجلس:۸)
★عارف جب درجۂ کمال پر پہنچتا ہے تو دنیا و مافیہا کو اپنی دو انگلیوں کے درمیان دیکھتا ہے چنانچہ بایزید علیہ الرحمہ سے پوچھا گیا کہ آپ نے طریقت میں کہاں تک ترقی کی ہے؟ تو فرمایا: یہاں تک کہ میں جب اپنی دونوں انگلیوں کے درمیان نگاہ کرتا ہوں تو اس میں تمام دنیا و ما فیہا نظر آتے ہیں-
★گناہ تم کو اتنا نقصان نہیں پہنچاسکتا جتنا کسی مسلمان بھائی کو ذلیل ورسوا کرنا-(ایضاً مجلس:۹) ★اگر قیامت کے دن کوئی چیز بہشت میں پہنچائے گی تو وہ ہے زہد نہ کہ علم-(مجلس:۹)
★میں نے اپنے پیر ومرشد حضرت خواجہ عثمان ہارونی سے سنا ہے کہ اگر کسی شخص میں تین خصلتیں پائی جائیں تو سمجھ لو کہ اللّٰہ تعالیٰ اسے دوست رکھتا ہے وہ تین چیزیں سخاوت، شفقت، اور تواضع ہیں- سخاوت دریا جیسی، شفقت مانند آفتاب،اورتواضع زمین کی سی-(مجلس:۹)
★دنیا میں سب سے بہتر تین اشخاص ہیں (۱)عالم جو اپنے علم سے بات کہے-(۲) جو حرص نہ رکھے-(۳) وہ عارف جو ہمیشہ دوست کی تعریف و توصیف کرے-(مجلس:۱۰ ص/۴۸)
★عارف آفتاب کی طرح ہوتا ہے جو سارے جہان کو روشنی بخشتا ہے جس کی روشنی سے کوئی چیز خالی نہیں رہتی-
★ اہل طریقت کے لیے دس شرطیں لازم ہیں- (۱)طلب حق-(۲)طلب مرشد-(۳) ادب-[مجلس:۱۲ ص/۵۸](۴)رضا- (۵)محبت وترک فضول-(۶)تقویٰ -(۷)استقامت شریعت-(۸)کم کھانا،کم سونا-(۹)خلق سے تنہائی اختیار کرنا- (۱۰) روزہ و نماز(بحوالہ معین الہند ص/۱۸۶)
★اہل حقیقت کے لیے بھی دس شرطیں لازم ہیں-(۱)معرفت میں کامل ہونا اور خدا رسیدہ ہونا-(۲) نہ خود رنج ہو نہ رنجیدہ کرے، کسی کی بدی کا خیال نہ کرے-(۳)حق تعالیٰ کی راہ دکھائے اور مخلوق کو ایسی بات بتائے جس میں دنیا و آخرت کا فائدہ ہو-(۴)تواضع- (۵)عزلت-(۶)ہر شخص کو عزیزو محترم جانے اور اپنے کو سب سے حقیر اور کمتر شمار کرے-(۷)تسلیم و رضا-(۸)ہر درد و رنج میں صبر-(۹) سوزوگداز عجزونیاز- (۱۰) قناعت وتوکل-(ایضاً ص/۱۸۶،۱۸۷)
★سب سے بہتر وقت وہ ہےکہ جب دل وسوسوں سے پاک ہو-
★چار چیزیں نفس کا جوہر ہیں[یعنی نفس کی خوبیوں میں سے ہیں](۱)درویشی میں تونگری ظاہر کرنا-(۲)بھوک میں آسودہ نظر آنا-(۳)غم میں مسرور[خوش]معلوم ہونا-(۴)دشمنوں کے ساتھ بھی دوستی کا برتاؤ کرنا-(مناقب العارفین از شیخ یٰسین جھونسوی مترجم)
اللّٰہ تعالیٰ ہم سبھی لوگوں کو سلطان الہند حضرت خواجہ غریب نواز علیہ الرّحمہ کے ان فرامین اور تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی توفیق مرحمت فرمائے-