*دین اسلام پر استقامت وثابت قدمی کی اہمیت*

*از:محمّدشمیم احمدنوری مصباحی!*
*دارالعلوم انوارِمصطفیٰ سہلاؤشریف،باڑمیر(راجستھان)*

دین اسلام پر ثابت قدمی اور استقامت بہت ہی حسّاس اور اہم موضوع ہے،دین اسلام کی ابتدائی تاریخ اسی “استقامت علی الدین”سے ہی تعبیر ہے،استقامت سے مراداسلام کوعقیدہ،عمل اور منہج قراردےکر مظبوطی سے تھام لیناہے،اوراستقامت علی الدین اللّٰہ اوراس کے رسول صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم کی اطاعت کو لازم پکڑنے اور اس پردوام اختیارکرنے کانام ہے،اہل علم نے استقامت کی مختلف تعریفات پیش کی ہیں مگران سب کاخلاصہ یہ ہے”احکامات اورمنہیات پرثابت قدم رہنا اورلومڑی کی طرح مکر وفریب سے کام نہ لینا”یعنی اوامر کے بجالانے اورنواہی کے ترک پر استمرار بجالانا- استقامت ایک ایساجامع کلمہ ہے جوتوحیدورسالت ودیگربنیادی وضروری معتقدات پرکامل ایمان واعتقادرکھتے ہوئے فرائض کی ادائیگی، اللّٰہ ورسول[جلّ جلالہ/صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم] کی محبّت،اللّٰہ ورسول کی باقاعدہ اطاعت وفرماں برداری لازم پکڑنے،معصیت کے کاموں کوچھوڑدینے اوراللّٰہ تعالیٰ کی حقیقی بندگی اختیارکرنے کانام ہے- اللّٰہ تعالیٰ نے نبی کریم صلّی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلّم اور آپ کی امّت کو دین پر ثابت قدمی اوراستقامت اختیار کرنے کاحکم بھی دیاہے جیساکہ ارشادباری تعالیٰ ہے”فَاستَقِم کَمَا اُمرتَ وَمَن تَابَ مَعَکَ وَلَاتَطغَوا اِنَّهُ بِمَاتَعمَلُونَ بَصِیر”…اس آیت کریمہ میں اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے محبوب نبی اوران کے صحابہ وامتیوں کو یہ حکم دیا ہے کہ وہ ویسی ہی استقامت اختیار کریں جیسی استقامت کاانہیں حکم دیاگیاہے-اور اس سے بالکل بھی انحراف نہ کریں – استقامت علی الدّین کی ضرورت مسلمانوں کو زندگی کے ہر موڑ اور مرحلہ پرپڑتی ہے-خصوصاً غمی اورخوشی کے موقع پرجب کہ دین کو محفوظ رکھنا بہت مشکل ہوتاہے،اور زندگی کے ہرطرح کی نامساعدحالات میں استقامت وثابت قدمی ایک مشکل مرحلہ ہوتاہے ان حالات میں دین پر مظبوطی سے قائم رہنا اور شریعت اسلامیہ کے مطابق صبروشکراورسکون سے رضائے الٰہی کی خاطر زندگی بسر کرناہی “استقامت علی الدین” ہے – استقامت کاعام فہم مطلب ہے ثابت قدم رہنا،ثابت قدمی اقوال وافعال میں،عقیدہ واعمال میں، ظاہروباطن میں،عمل وسیرت میں، فکروںظرمیں،اللّٰہ کی معرفت اور اس کی خشیّت میں،اللّٰہ کی عظمت وہیبت کے ادراک میں،اس کی کبریائی وجلال کے اعتراف میں،اس سے امّیدوبیم میں اور اللّٰہ وحدہ لاشریک پر توکّل اور دوسروں سے بےزاری میں- دین اسلام پر ثابت قدمی بہت ہی ضروری ہے،اس کی اہمیت کااندازہ اس بات سے لگائیں کہ خود خالق کون ومکاں اللّٰہ وحدہ لاشریک نے اپنے بندوں کو ثابت قدمی کے دعا کی تعلیم وتلقین کی جیساکہ ارشاد خداوندی ہے”رَبّنَااَفرِغ عَلَینَا صَبراً وَثَبِّت اَقدَامَنَا”(سورۂ بقرہ:۲۵)

اور ہمارے اورآپ کے نبی باعث تخلیق کائنات حضورنبی کریم صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم دین پر استقامت کی کثرت سے اس طرح دعامانگاکرتے تھے”یَامُقَلِّبَ القُلُوبِ ثَبِّت قَلبِی عَلیٰ دِینِکَ”…[ائے دلوں کوپھیرنے والے میرے دل کو اپنے دین پر قائم فرما]
اللّٰہ کے رسول کی اس دعامیں بھی ہم امتیوں کے لئے اس بات کی تعلیم ہے کہ ہم بارگاہ مولیٰ تعالیٰ میں دین پر ثابت قدمی کی دعاکرتے رہیں اور دین پراستقامت کے لیے ہمہ وقت کوشاں رہیں-
اور ویسے بھی ایمان لانے کے بعد بندے پر اللہ کی طرف سے جو خاص ذمہ داریاں عائد ہوجاتی ہیں ان میں سے ایک بڑی ذمہ داری یہ بھی ہے کہ بندہ پوری مضبوطی اورہمت کے ساتھ دین پر قائم رہےاورخواہ زمانہ اس کے لیے کیساہی ناموافق ہوجائے وہ کسی حال میں دین کا سراہاتھ سے چھوڑنے کے لیے تیار نہ ہو، اسی کانام “استقامت” ہے،قرآن شریف میں ایسے لوگوں کے لیے بڑے انعامات اور بڑے درجوں کا ذکر کیا گیا ہے، ایک جگہ ارشاد ہے:
“اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللہُ ثُمَّ اسْـتَقَامُوْا تَـتَنَزَّلُ عَلَیْہِمُ الْمَلٰئِکَۃُ اَلَّا تَخَافُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَبْشِرُوْا بِالْجَنَّۃِ الَّتِیْ کُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَo نَحْنُ اَوْلِیٰــؤُکُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَفِی الْاٰخِرَۃ وَلَکُمْ فِیْہَا مَا تَشْتَہِیْٓ اَنْفُسُکُمْ وَلَکُمْ فِیْہَا مَا تَدَّعُوْنَo نُزُلًا مِّنْ غَفُوْرٍ رَّحِیْمٍ”۔
(فصلت:۳۰)
جن لوگوں نے اقرار کرلیا(اوردل سے قبول کرلیا)کہ ہمارا رب بس اللہ ہے (اورہم اس کے مسلم بندے ہیں)پھر وہ اس پر ٹھیک ٹھیک قائم رہے،(یعنی اس اقرار کا حق ادا کرتے رہےاورکبھی اس سے نہ ہٹے)ان پر اللّٰہ کی طرف سے فرشتے یہ پیغام لے کر اتریں گے کہ کچھ اندیشہ نہ کرواورکسی بات کا رنج وغم نہ کرو، اور اس جنت کے ملنے سے خوش رہو جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا ہم تمہارے رفیق ہیں دنیوی زندگی میں اور آخرت میں اور تمہارے لیے اس جنت میں وہ سب کچھ ہوگا جو تمہارا جی چاہے گا اور تمہیں وہ سب کچھ ملے گا جو تم مانگو گے یہ باعزت مہمانی ہوگی تمہارے رب غفورورحیم کی طرف سے۔
سبحان اللہ!دین پر مضبوطی سے قائم رہنے والوں اور بندگی کا حق اداکرنے والوں کے لیے اس آیت میں کتنی بڑی بشارت ہے سچ تو یہ ہے کہ اگر جان مال سب کچھ قربان کرکے بھی کسی کو یہ درجہ حاصل ہوجائے تو وہ بڑا خوش نصیب ہے، ایک حدیث میں ہے۔
“رسول اللہﷺ سے ایک صحابی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا کہ حضور! مجھے کوئی ایسی کافی وافی نصیحت فرمائیے کہ آپ کے بعد پھر کسی سے کچھ پوچھنے کی حاجت نہ ہو،آپ نے ارشاد فرمایا کہو بس اللّٰہ میرا رب ہے اور پھر اس پر مضبوطی سے جمے رہو(اور اس کے مطابق بندگی کی زندگی گزارتے رہو)”۔
(مسلم، بَاب جَامِعِ أَوْصَافِ الْإِسْلَامِ)

قرآن شریف میں ہماری ہدایت کے لیے اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے کئی ایسے وفاداربندوں کے بڑے سبق آموز واقعات بیان فرمائے ہیں جو بڑے سخت ناموافق حالات میں بھی دین پر قائم ودائم رہے اور بڑے سے بڑا لالچ اورسخت سے سخت تکلیفوں کا ڈربھی ان کو دین سے نہیں ہٹا سکا، ان مین ایک واقعہ تو ان جادوگروں کا ہے جنہیں کافروں نے حضرت موسیٰ علیہ السّلام کے مقابلہ کے لیےبلایاتھا اور بڑے انعام واکرام کا ان سے وعدہ کیا تھا لیکن خاص مقابلہ کے وقت جب موسیٰ علیہ السّلام کے دین کی اور ان کی دعوت کی سچائی ان پر کھل گئی تو نہ تو انہوں نے اس کی پرواہ کی کہ فرعون نے جس انعام واکرام کا اورجن بڑےبڑے عہدوں کا وعدہ ہم سے کیا ہے ان سے ہم محروم رہ جائیں گے اور نہ اس کی پرواہ کی کہ فرعون ہمیں کتنی سخت سزادے گا،بہرحال انہوں نے ان سب خطروں سے بے پرواہ ہوکر بھرے مجمع میں پکارکے کہہ دیا کہ:”امنا برب ھارون وموسیٰ”(یعنی ہارون اورموسیٰ جس پروردگار کی بندگی کی دعوت دیتے ہیں ہم اس پر ایمان لے آئے) پھر جب خدا کے دشمن فرعون نے ان کو دھمکی دی کہ میں تمہارے ہاتھ پاؤں کٹواکے سولی پہ لٹکوادوں گا،توانہوں نے پوری ایمانی جرأت سے جواب دیا:

“فَاقْضِ مَآ اَنْتَ قَاضٍoاِنَّمَا تَقْضِیْ ہٰذِہِ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَاoاِنَّآ اٰمَنَّا بِرَبِّنَا لِیَغْفِرَ لَنَا خَطٰیٰنَا”۔
(طٰہٰ:۷۲)
تجھے جوحکم دیناہو دے ڈال،تواپنا حکم بس اس چندروزہ دنیوی زندگی ہی میں تو چلاسکتا ہے اور ہم تو اپنے سچے رب پرایمان اس لیے لائے ہیں کہ وہ(آخرت کی ابدی زندگی میں) ہماری خطاؤں کو بخش دے۔
اوراس سے بھی زیادہ سبق آموز واقعہ خود فرعون کی بیوی کا ہے،آپ کو معلوم ہے کہ فرعون مصرکی بادشاہت کا گویا اکیلا مالک ومختار تھا اور اس کی یہ بیوی ملک مصر کی ملکہ ہونے کے ساتھ خود فرعون کے دل کی بھی گویا مالکہ تھی بس اس سے اندازہ کیجئے کہ اس کو دنیا کی کتنی عزت اورکیسا عیش حاصل ہوگا،لیکن جب موسیٰ علیہ السّلام کے دین اور ان کی دعوت کی سچائی اللّٰہ کی اس بندی پر کھل گئی تو اس نے بالکل اس کی پرواہ نہ کی کہ فرعون مجھ پر کیسے کیسے ظلم کرے گا اور دنیا کے اس شاہانہ عیش کے بجائے مجھے کتنی مصیبتیں اورتکلیفیں جھیلنی پڑیں گی؟الغرض ان سب باتوں سے بالکل بے پرواہ ہوکر اس نے اپنے ایمان کا اعلان کردیااور پھر حق کے راستہ میں اللّٰہ کی اس نیک بندی نے ایسی ایس تکلیفیں اٹھائیں جن کے خیال سے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اور کلیجہ منھ کوآتا ہے، پھر اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے ان کو یہ درجہ ملا کہ قرآن شریف میں بڑی عزت کے ساتھ ان کا ذکر کیا گیا اور مسلمانوں کے لیے ان کے صبر اور ان کی قربانی کو نمونہ بتلایاگیا ارشاد ہے:
“وَضَرَبَ اللہُ مَثَلًا لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوا امْرَاَتَ فِرْعَوْنَ اِذْ قَالَتْ رَبِّ ابْنِ لِیْ عِنْدَکَ بَیْتًا فِی الْجَنَّۃِ وَنَجِّــنِیْ مِنْ فِرْعَوْنَ وَعَمَلِہٖ وَنَجِّــنِیْ مِنَ الْقَوْمِ الظّٰلِــمِیْنَ”۔
(التحريم :۱۱)
اورایمان والوں کے لیے اللّٰہ تعالیٰ مثال بیان فرماتاہےفرعون کی بیوی(آسیہ)کی،جب کہ اس نے دعاکی کہ اے میرے پروردگار! تومیرے واسطے جنت میں اپنے قرب کے مقام میں ایک گھر بنادے اور مجھے فرعون کے شر سے اور اس کی بداعمالیوں سے نجات دے اور اس ظالم قوم سے مجھے رہائی بخش دے۔
سبحان اللہ! کیا مرتبہ اورکیاشان ہے کہ ساری امت کے لیے یعنی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ سے لے کر قیامت تک کے سب مسلمانوں کے لیے اللّٰہ تعالیٰ نے اپنی اس بندی کی استقامت کو مثال اور نمونہ قراردیا ہے۔
حدیث شریف میں ہے کہ مکہ معظمہ میں جب مشرکوں نے مسلمانوں کو بہت ستایا اور ان کے مظالم حد سے بڑھ گئے تو بعض صحابہ رضوان اللّٰہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے رسول اللّہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم سے عرض کیا کہ:حضور! اب ان ظالموں کے ظلم حد سے بڑھ رہے ہیں لہذا آپ اللّٰہ تعالیٰ سے دعافرمائیں،توحضورصلّی اللّٰہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ:تم ابھی سے گھبراگئے! تم سے پہلے حق والوں کے ساتھ یہاں تک ہوا ہے کہ لوہے کی تیز کنگھیاں ان کے سروں میں پیوست کرکے نکال دی جاتی تھیں اور کسی کے سرپر آرہ چلاکے بیچ سے دوٹکڑے کردئے جاتے تھے،لیکن ایسے سخت وحشیانہ ظلم بھی ان کو اپنے سچے دین سے نہیں پھیر سکتے تھےاوروہ اپنے دین نہیں چھوڑتے تھے”۔
اللہ تعالی ہم کمزوروں کو بھی اپنے ان سچے بندوں کی ہمت اوراستقامت کا کوئی ذرہ نصیب فرمائے اوراگر ایسا کوئی وقت مقدر ہوتواپنے ان وفادار بندوں کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے۔
اب آئییے آخر میں اجمالاًدین پر استقامت وثابت قدمی کے کچھ اہم وسائل ملاحظہ فرمائیں!
دین پر استقامت کے وسائل:★قرآن مقدّس کی جانب خوب خوب توجّہ وعنایت کرنا-★خوف خداوندی دل میں بیٹھانے کی پیہم کوشش-★شریعتِ اسلامیہ پرعمل اورعمل صالح کاالتزام-★اتباع اور عمل کرنےکےلیے انبیائے کرام کے واقعات میں غوروفکر اور اس کا پڑھناپڑھانا-★بارگاہ خدواندی میں دعاکرنا-★اللّٰہ ورسول کاذکر-★مسلمان کاصحیح اورسیدھےراستےپرچلنے کی حرص وتڑپ-★صحیح تربیت-★ثابت شدہ عناصر کواپنانا-★نصرت خداوندی پر بھروسہ رکھنا-★باطل کی حقیقت کی بھی معرفت رکھنااوراس سے دھوکہ نہ کھانا-★ثابت قدمی پر معاون اخلاق کے زیورسےآراستہ ہونا-★جنّت کی نعمتوں اورجہنم کے شدید عذاب کے بارے میں غوروفکر کرنا اور موت کویادکرنا-[وغیرہ]
اب ہم اس دعا کے ساتھ اس مضمون کو یہیں ختم کرتے ہیں!
اللھم ارزقنا الاستقامة واحلّنا دارالکرامة واجرنا من الذُّل الخزی والمُھانة
یااللّٰہ!استقامت کی روش کی توفیق عطافرما،اورعزّت واکرام کاگھر عطافرما اور ذلّت ورسوائی سے محفوظ رکھ!