بھونیا پور،اسکابازار،سدھارتھ نگر میں “جشن ادائے مصطفیٰ ومحفل میلاد پاک” منایا گیا-

’’ایجاب وقبول‘‘کے مخصوص الفاظ کے ذریعہ مرد وعورت کے درمیان ایک خاص قسم کا دائمی تعلق اور رشتہ قائم کرنا نکاح کہلاتا ہے، جو دو گواہوں کی موجودگی میں ایجاب وقبول کے صرف دو لفظوں کی ادائیگی سے منعقد ہوجاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے نکاح کو عبادت کا درجہ دیا ہے۔ قرآن مجید میں اور اپنے آخری پیغمبر حضرت محمد مصطفیٰ احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی جابجا نکاح کے لئے اپنے بندوں کو ترغیب دی ہے۔
اسلام میں نکاح کی بڑی اہمیت ہے۔ اسلام نے نکاح کے ‎تعلق سے جو فکرِ اعتدال اور نظریہ توازن پیش کیا ہے وہ نہایت جامع اور بے نظیر ہے۔ اسلام کی نظر میں نکاح محض انسانی خواہشات کی تکمیل اور فطری جذبات کی تسکین کا نام نہیں ہے۔انسان کی جس طرح بہت ساری فطری ضروریات ہیں، بس اسی طرح نکاح بھی انسان کی ایک اہم فطری ضرورت ہے، اس لیے اسلام میں انسان کو اپنی اس فطری ضرورت کو جائزاور مہذب طریقے کے ساتھ پوراکرنے کی اجازت ہے اور اسلام نے نکاح کو انسانی بقا وتحفظ کے لیے ضروری بتایا ہے۔۔۔
اسلام نے تو نکاح کو احساسِ بندگی اور شعورِ زندگی کے لیے عبادت سے تعبیر فرمایا ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد ربانی ہے کہ! اے لوگو ، اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی میں سے اس کا جوڑا پیدا کیا اور ان دونوں سے کثرت سے مرد و عورت پھیلا دیئے۔ (سورۂ نسآء)‏‎متعدد احادیث میں بھی نکاح کرنے کا حکم مذکور ہے، ایک حدیث مبارکہ میں سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: اے جوانو کی جماعت! تم میں جو شخص خانہ داری (نان ونفقہ) کا بوجھ اٹھانے کی قدرت رکھتا ہو اس کو نکاح کرلینا چاہیے، کیونکہ نکاح کو نگاہ کے پست ہونے اور شرمگاہ کے محفوظ رہنے میں خاص دخل ہے اور جو شخص قدرت نہ رکھتا ہو اس کو روزہ رکھنا چاہیے،(مسلم شریف) دوسری حدیث مبارکہ میں ہے کہ حضور نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا کہ جب بندہ نکاح کرلیتا ہے تو آدھا دین مکمل کر لیتا ہے، اب اس کو چاہیے کہ نصف دین میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتا رہے (ترغیب) اس طرح مختلف احادیث میں شادی نہ کرنے پر وعید آئی ہے، ایک حدیث میں مذکور ہے کہ جو شخص باوجود تقاضائے نفس وقدرت کے نکاح نہ کرے وہ ہمارے طریقہ سے خارج ہے (کیونکہ یہ طریقہ نصاریٰ کا ہے کہ وہ نفس نکاح کو وصول الی اللہ سے مانع سمجھ کر اس کے ترک کو (نکاح نہ کرنے کو) عبادت سمجھتے ہیں-اس لیے سبھی مسلمانوں کو چاہییے کہ جب ان کے بچے بالغ اور شادی کے لائق ہو جائیں تو اوّل فرصت میں ان کے لیے مناسب اور دیندار گھرانا دیکھ کر رشتہ ونکاح کروادیں اس طرح جہاں سنّت رسول کی بجاآوری ہوگی وہیں وہ بہت ساری برائیوں سے بچ بھی جائیں گے اور نکاح خوانی کے صدقے ان شاءاللہ العزیز آپ کے گھروں میں خیروبرکت بھی ہوگی- ساتھ ہی ساتھ ہمیں چاہییے کہ جب کبھی بھی ہم اپنے بچوں کی شادی بیاہ کریں تو شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے کرنے کی کوشش کریں کیونکہ اب وقت آگیا ہے کہ ہم نکاح میں پائی جانے والی خرابیوں اور رسم و رواج کے خلاف طاقتور آواز بلند کریں اور ہر قسم کے مفاسد اور بری باتوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں۔ بیجا رسومات جوڑے گھوڑے اور مروجہ جہیز کی لعنت سے بچتے ہوئے نکاح کو آسان بنائیں، کیوں کہ کم خرچ، ہلکی پھلکی اور آسان شادیوں کے سلسلے میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ‘وہ نکاح بہت ہی بابرکت ہے جس کا بوجھ کم سے کم ہو’۔(بیہقی)

لیکن افسوس صد افسوس کہ آج ہماری شادیاں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کے بالکل برعکس ہو رہی ہیں جس کے نتیجے میں ہم نت نئے خانگی الجھنوں اور پریشانیوں میں مبتلا ہوگئے ہیں۔
ازدواجی زندگی کو خوشگوار، خوش حال اور کامیاب بنانے کے لیے اسلام نے جن باتوں کا ہمیں حکم دیا ہے، آج ہم انہی باتوں کو پس پشت ڈالے ہوئے ہیں جس کے سبب ہم فساد وبگاڑ کی طرف نہایت تیزی سے رواں دواں ہیں۔ شادی کے شرعی معیار کو نظر انداز کر دینے کے سبب ہم مصیبت عظمیٰ میں گرفتار ہو گئے ہیں۔
اسلامی شادیاں جو کبھی سنت نبوی کے مطابق انجام پانے کی وجہ سے مبارک تھیں آج رسومات مروجہ کے مطابق ہونے کی وجہ سے نامبارک ہو گئی ہیں، ہماری شادیاں جو خانہ آبادی اور مسرت و شادمانی کا ذریعہ و وسیلہ تھیں آج شرعی معیار کو نظر انداز کر دینے کی وجہ سے خانہ بربادی کا ذریعہ بن گئی ہے۔ آج شادی کے بعد دو خاندانوں کے درمیان محبت کے بجائے عداوتیں وجود میں آ رہی ہیں۔ اس لیے اگر ان ساری باتوں سے بچنا ہے تو ہمیں شریعت اسلامیہ کی پاسداری کرنی ہوگی-
مذکورہ خیالات کا اظہار مورخہ 14 مئی 2022 عیسوی بروز اتوار بعدنمازعشاء عالی جناب ریاض احمدانصاری ساکن بھونیا پور، پوسٹ:اسکابازار،ضلع سدھارتھ نگر کی صاحبزادی کی شادی خانہ آبادی کے موقع پر منعقدہ “محفل میلاد پاک وجشن ادائے سنّت مصطفیٰ” میں فاضل جلیل حضرت مولانا حافظ وقاری معین الدین صاحب مصباحی استاذ جامعہ شمسیہ تیغیہ برہڑیا، سیوان،بہار اور حضرت مولانا محمد شاہدرضا نوری فیضی صدرالمدرسین دارالعلوم غوثیہ فیض الرسول سمرہنا نے اپنے خطاب کے دوران کیا-
اس محفل میں درج ذیل حضرات نے نعت خوانی کا شرف حاصل کیا-
حضرت مولانا سراج احمدصاحب قادری علیمی،مولوی احمد حسین قادری،مولوی مجاہدرضا،محمداشرف رضا،محمدعارف رضا وغیرہم
اس مجلس میں خصوصیت کے ساتھ یہ حضرات شریک رہے-
حضرت مفتی محمدامتیاز احمد صاحب قادری،حضرت مولانا عبیدالرضاصاحب قادری،حضرت مولاناارشاداحمدصاحب مصباحی، حافظ فیروز احمدبرکاتی،حافظ محمدفاروق، جناب مشتاق احمد صاحب انصاری، جناب نثاراحمد صاحب،جناب قمرالدین صاحب انصاری،جناب اسراراحمد انصاری،جناب اشفاق احمد وغیرہم-
صلوٰة وسلام اور حضرت مولانا محمدشمیم احمدصاحب نوری مصباحی ناظم تعلیمات:دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف کی دعا پر یہ مجلس اختتام پزیر ہوئی-

رپورٹ:صغیر احمد انصاری
ساکن:بھوانیا پور،پوسٹ:اسکابازار، ضلع:سدھارتھ نگر(یوپی)